Thursday, November 22, 2012

المانیہ او المانیہ۔ قسط نمبر تین

المانیہ او المانیہ۔ ۔جرمنی کی سیر
ِ المانیہ او المانیہ۔ سیرِ برلن
قسط نمبر (۳)
ہماری بس چیک پوائینٹ چارلی پہنچی تو مغربی جرمنی کی سرحد پر متعین گارڈز نے ہمارے پاسپورٹ کا جائزہ لیا اور ہمیں آگے بڑھنے کا اشارہ کردیا۔ بس رینگتی ہوئی آگے بڑھی اور نو مینز لینڈ سے ہوتی ہوئی مشرقی جرمنی کی سرحد پر پہنچ گئی۔ دیوارِ برلن کو دیکھ کر جو ہیبت ہم پر طاری ہوگئی تھی وہ اور زیادہ گہری ہوگئی۔ مشرقی جرمن فوجیوں نے انتہائی سرعت کے ساتھ بس کو گھیرے میں لے لیا اور اس کی جامع تلاشی شروع کردی۔ تمام مسافروں کے پاسپورٹ چیک کرکے اپنے قبضے میں کرلیے گئے اور بس کی نچلی منزل پر واقع سامان کے کمپارٹمنٹ کو کھول کر اس کی بھی تلاشی لی گئی۔ تقریبا آدھے گھنٹے کی چیکنگ کے بعد آخر کار ہمیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا گیا۔ اب ہم اگلے چار گھنٹے تک اس بس چے چمٹے رہنے پر مجبور تھے اس لیے کہ ہمارے پاسپورٹ فوجیوں نے اپنے قبضے میں لے لیے تھے جو بشرط واپسی ہی ہمیں لوٹائے جانے تھے۔ ہمارے دل میں یہ احساس جاگزیں ہوچکا تھا کہ ہم ایک آزاد دنیا سے ایک قید خانے میں جارہے تھے۔ایک عجیب اداسی کی کیفیت ہمارے حواس پر طاری ہورہی تھی۔اے اداسی تجھے سلام۔ ہم جو صرف چار گھنٹے کے لیے اس دنیا میں داخل ہوا چاہتے تھے، پریشان تھے، اداس تھے، اپنی آزادی کے چھن جانے پر خوفزدہ تھے۔ ہمیں ان لوگوں کا بھی خیال تھا جو اپنی ساری زندگی اس قید خانے میں گزارنے پر مجبور تھے۔ جن کے ارد گرد ایک لوہے کا پردہ ڈال دیا گیا تھا۔ جو اس وسیع و عریض قید خانے میں ضمیر کے قیدی تھے۔ بھاری دل کے ساتھ ہم نے اس نئی دنیا میں قدم رکھا اور ہماری بس نے چیک پوایئنٹ چارلی سے مشرقی برلن ( مشرقی جرمنی) میں سفر شروع کیا۔
بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر ہمارے پیارے قارئین کو چیک پوائینٹ چارلی سے متعلق کچھ معلومات فراہم کردی جائیں۔ یہ معلومات ہم نے مندرجہ ذیل ویب سائیٹ سے لی ہیں ۔ قارئین اس ویب سائیٹ پر جاکردیوارِ برلن کی پوری تاریخ جان سکتے ہیں۔
http://www.dailysoft.com/berlinwall/history/
’’ ۱۳ اگست ۱۹۶۱ کو سرحدبند کرنے کے دس دن بعد، سیاحوں، دوسرے ممالک کے افسروں ( ڈپلو میٹس ) اور مغربی طاقتوں کے فوجیوں کو مشرقی برلن میں داخلے کے لیے صرف فریڈریش اسٹراسے پر واقع گیٹ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ کچھ دن بعد ، اس کے علاوہ دو اور چیک پوائینٹس کھولے گئے جن میں سے ایک مغربی جرمنی کی سرحد پر واقع تھا اور ہیلم اشٹاڈ میں تھا اور دوسرا مغربی برلن اور مشرقی جرمنی کی سرحد پر ،ڈرائی لنڈن میں تھا۔ ان تین چیک پوائینٹس کو بالترتیب چیک پوائینٹ الفا ( ڈرائی لنڈن)، چیک پوائینٹ براوو ( ہیلم اشٹاڈ) اور چیک پوائینٹ چارلی ( فریڈریش اسٹراسے) کے نام سے پکارا گیا۔‘‘ 
چیک پوائینٹ چارلی سے آگے بڑھے تو ہماری حسین گائڈ نے بس کے انٹر کام پر ہمیں خوش آمدید کہا اور ارد گرد کی عمارات سے متعلق معلومات بہم پہنچانا شروع کردیں۔ ہم ایک کشادہ سڑک پر پہنچے تو گائڈ نے بتایا کہ اس سڑک کا نام اُنٹر ڈی لنٹن یعنی ’’لیموں کے درختوں کی چھاؤں میں‘‘ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اس سڑک پر دورویہ لیموں کے درخت لگائے گئے تھے جسکی وجہ سے اس اسٹراسے کا نام ہی اُنٹر ڈی لنٹن پڑ گیا تھا۔ اس وسیع و عریض شاہراہ کے دونوں جانب انتہائی عالیشان عمارتیں اس شہر کے عظیم ماضی کے قصے سنا رہی تھیں۔ ایک ایک عمارت دیکھنے کے لائق تھی۔ خوبصورت، عالیشان اور فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ۔ یکے بعد دیگرے ان عمارتوں کا ایک سلسلہ تھا جو دور تک پھیلا ہوا تھا۔ پتھر کی بنی ہوئی یہ بلند و بالا عمارتیں اس پارینہ عظمت کے گن گا رہی تھیں جو اس شہر اور اس عظیم ملک کا خاصہ تھی۔ہم دیکھتے ہی چلے گئے۔ کبھی بس کے سامنے کے شیشے سے آنے والی عمارت کو دیکھتے، کبھی دائیں دیکھتے اور کبھی بائیں۔ ادھر ہماری گائڈ ایک خوبصورت جرمن خاتون تھی جس کے گلے کی حلاوٹ پر ہم کئی کئی مرتبہ قربان ہو ہو سے گئے۔اس کا بیان پہلے جرمن اور پھر انگلش زبان میں ہوتا۔ پہلے ہم اسکے حسین چہرے کی بناوٹ کو دیکھتے ہوئے اس کے خوبصورت منہ سے جرمن زبان کی شیرینی کے مزے لوٹتے اور پھر انگلش میں اس کا مدعا جانتے۔ پہلے جرمن زبان میں وہ جب بھی شہر برلن کا تذکرہ کرتی، اسکے بیان میں لفظ ’برلن‘ ہمیں بلین سنائی دیتا ، پھر اسکے ترجمے میں وہ اسے انگلش لہجے میں بورلن ( رے کو پر کرکے) ادا کرتی۔ ہم جو اسکے الفاظ کی ادائیگی اور تلفظ پر پہلے ہی فدا ہورہے تھے، اس لفظ کو دو مختلف زبانوں میں سن کر تو جھوم جھوم اٹھتے۔اگلے تین گھنٹے کچھ اس تیزی کے ساتھ گزرے کہ ہم حیران رہ گئے ۔کاش کچھ اور وقت ملا ہوتا تاکہ ہم اس کی زبان کی شیرینی سے صحیح طور پر لطف اندوز ہو سکتے۔ کاش کچھ اور وقت ملا ہوتا اور ہم پیدل گھوم کر ان عمارتوں کو دیکھ پاتے۔ یہی سوچتے ہوئے ہم ایک ایک گزرے ہوئے لمحے کو اپنی یادداشت میں محفوظ کرتے رہے۔
ایک جگہ ، پتھر کی خوبصورت عمارت کے صحن میں ہمیں بس سے تارا گیا۔ ہم نے ٹانگیں سیدھی کیں اور گائڈ کی جانب دیکھا تو پتا چلا کہ ہمیں ایک عدد میوزیم کو دیکھنے کے لیے یہاں روکا گیا ہے۔ میوزیم بھی خاصا دلچسپ تھا۔ فارغ ہوئے تو پھر بس میں اپنی اپنی سیٹ سنبھالی اور اپنی حسین ٹوور گائڈ اورمشرقی برلن کے خوبصورت نظاروں میں کھو گئے۔
بس میں سے چلتے چلتے ہم نے ایک عدد عالیشان اور خوبصورت گیٹ کو بھی دیکھا جس کے اوپر ایک لائف سائز رتھ کو چار تنومندگھوڑے کھینچ رہے تھے۔اس ’’کواڈریگا ‘‘ یعنی رتھ کو جرمن دیومالائی کہانیوں کی فتح کی دیوی ’’ وکٹوریہ‘‘ چلارہی ہے۔ پتھر کا بنا ہوا یہ مجسمہ اتنا دل لبھانے والا تھا کہ ہم مبہوت ہوکر اسے دیکھتے رہے جب تک کہ وہ ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہوگیا۔یہ عمارت جس کا نام برنڈن برگ گیٹ ہے، برلن کا لینڈمارک یا علامتی عمارت کہلائی جانے کی بجا طور پر مستحق ہے 
کبھی کبھی دیوار برلن کی بھی ہمیں ایک آدھ جھلک نظر آجاتی تھی لیکن دور دور سے، ا دھر ہماری گائڈ اس بارے میں خاموش تھی۔ وہ ہمیں سامنے سے گزرنے والی عمارتوں کے ماضی بعید کے بارے میں فر فر بتاتی رہی، لیکن پچھلے پچاس ساٹھ سالہ تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ 
خیر صاحب ، یہ چار گھنٹے کہاں گئے، ہمیں آج تک نہیں پتا چلا۔ ہم ایک خوابناک انداز میں اس عظیم الشان شہر کو دیکھتے رہے یہاں تک کہ بس دوبارہ چیک پوائینٹ چارلی پر پہنچ کر رک گئی۔ اب جو تلاشی شروع ہوئی ہے تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ بس کے ہر کونے کھدرے کی تلاشی لی گئی۔سامان کے کمپارٹمنٹ کو دوبارہ کھلوا کر ایک ایک سوٹ کیس اور بیگ کو نکال کر دیکھا گیا۔دراصل مشرقی جرمنی والے یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا کوئی بھی شہری ان کے چنگل سے آزاد ہوکر آزاد دنیا میں جاسکے اور سکھ اور چین کا سانس لے سکے۔ہمیں ہر لمحہ یہ خوف دامن گیر تھا کہ کہیں ہمیں کسی ناکردہ گناہ کی پاداش میں روک ہی نہ لیا جائے۔ خیر خدا خدا کرکے اس تکلیف دہ صورت حال کا خاتمہ ہوا اور فوجیوں نے بس کو آگے بڑھانے کا اشارہ کردیا۔ ہمیں اپنے پاسپورٹ کی بھی فکر دامن گیر تھی لیکن گائڈ کے ہاتھوں میں پاسپورٹوں کی گڈی میں جھانکتا ہوا ہرا رنگ دیکھ کر جان میں جان آئی۔ بس نے ہمیں اسی چوک میں اتار دیا جہاں سے ہم اس سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم مشرقی جرمنی کے شہر مشرقی برلن ہو آئے ہیں۔ہم نے اور ہمارے کینیڈین دوست نے اپنے اپنے پاسپورٹ سنبھالے اور دوسری بس کی جانب بڑھے جو مغربی برلن کی سیر کے لیے تیار تھی۔ 
اگلے آدھے گھنٹے کے اندر اندرہم مغربی برلن کی سیر کی غرض سے ایک دوسری بس میں آرام سے بیٹھے تھے، ہماری ہمسفر گائڈ ایک اور جرمن شگفتہ چہرے والی خاتون تھی اور بس اپنے سفر پر روانہ ہونے کو تھی۔ ہم نے اپنی نگاہیں گائڈ کے چاند سے چہرے پر گاڑدیں اور مغربی برلن کی بہاریں دیکھنے کے لیے تیار ہوگئے۔
بس چلی تو سب سے پہلا نظارہ قیصر ویلہلم کا گرجا تھا جو جنگ عظیم دوم میں تقریباً مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا، اس کا تباہ شدہ مینار اب بھی اسی حالت میں کھڑا عظمت رفتہ کی کہانی سنارہا ہے جسکے برابر ۱۹۶۳ میں ایک نئی عمارت بنا دی گئی ہے۔ بس گھومتی رہی اور ہم مغربی جرمنی کی خوبصورت اور نسبتاً نئی عمارات کو دیکھتے رہے۔ ہمارا خیال ہے کہ زیادہ تاریخی اور عالیشان عمارات شہر کے مشرقی حصے میں تھیں۔ بس نے ہمیں دیوارِ برلن کے قریب ایک عمارت میں اتارا اور ہم اس میوزیم کو دیکھتے ہوئے دیوارِ برلن کی اصل کہانی سنتے رہے۔ یہاں سے ہم دیوار کے قریب گئے اور اس پر مغربی جانب بنے ہوئے مصوری کے نمونے دیکھا کیے۔ قریب ہی کچھ قبریں بھی تھیں جو دیوار پار کرنے والوں پر مشرقی گارڈز کے ظلم کی داستان سنا رہی تھیں۔
ہم نے میوزیم کی عمارت کے چبوترے پر چڑھ کر دوسری طرف جھانکا تو قریب ہی برنڈن برگ گیٹ کی عالیشان عمارت نظر آرہی تھی۔ دیوار کی دوسری جانب ایک ہیبت ناک سناٹا چھایا ہوا تھا اور کوئی آدم یا آدم زاد نظر نہیں آتا تھا، گو یا کسی انسان کوبھی اُدھر دم مارنے کی اجازت نہ تھی، اِدھر مغربی جانب اسے ایک مصور دیوار کی حیثیت حاصل تھی جس پر ہزاروں مصوروں نے اپنے نقش و نگار چھوڑے تھے۔
بحیثیت مجموعی برلن ہمیں اچھا لگا تھا۔ آج تقریباً پچیس سال بعد ہم اس شہرکو دوبارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ متحدہ برلن کتنا عظیم الشان شہر ہوگا۔ اس کریہہ المنظر دیوار کا کیا ہوا ہوگا۔ ٹی وی پر کئی مرتبہ اس دیوار کو گرتے ہوئے دیکھاہے، جو ہمیں بہت اچھا لگا۔ اس وقت لوگوں کے بپھرے ہوئے جذبات کا کیا عالم ہوگا جب انھوں نے ہر زنجیر کو توڑ دیا اور اس قبیح دیوار کو آخر کار گرادیا جس نے انھیں پچاس سال ایک دوسرے سے جدا رکھا تھا۔ اس دنیا میں ہم نے ایک ملک کے اتحاد کو پارہ پارہ ہوتے ہوئے تو اکثر دیکھا ہے لیکن یونیفیکیشن یعنی ایک ملک کے دوحصوں کو متحد ہوتے ہوئے پہلی بار دیکھا۔People have spoken عوام کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔
اپنےدن کی اس مصروفیت میں ہم دوپہر کا کھانا بھول چکے تھے، لہٰذا ان دونوں سفروں سے فارغ ہوکر ہم نے ایک ریستوران میں جاکر رات کا کھانا کھایا ، اور اسٹیشن پہنچ کر میونخ کی ٹرین پر سوار ہوگئے۔ ابھی اتوار کا دن باقی تھا جسے ہم میونخ کی سیر میں گزارنا چاہتے تھے۔ آج ساری رات سفر میں سوتے ہوئے گزار کر کل صبح سویرے ہم میونخ پہنچ جائیں گے جسے اہلِ جرمنی میونچن کہتے ہیں۔ 
رات آئی تو پھر گارڈز نے ہمارے پاسپورٹ چیک کیے اور ہمیں مشرقی جرمنی کا ٹرازٹ ویزا تھمادیا۔ یہ دونوں کاغذات اب بھی ہمارے خزانے میں موجود ہیں۔ جب کبھی ہم اپنے اس خزانے کو نکال کر دیکھنا شروع کرتے ہیں میموری لین میں پہنچ جاتے ہیں، اپنی پیاری یادوں کے درمیان، جب ہم نے یہ سفر کیے تھے۔ جب ہم نے اس انوکھی سرزمین کی سیر کی تھی۔
اس سفر سے واپسی کے بعد برلن ہمارے لیے اجنبی شہر نہ تھا۔ جب کبھی کسی ناول میں اس کا تذکرہ آتا، ہم بہت شوق سے اسے پڑھتے۔ برلن جسے ہم دیکھ چکے۔ دیوارِ برلن جو اب قصہ پارینا بن چکی ، ہم نے اسے دیکھا ہے۔ جان لی کار کا جاسوسی ناول ’’دی اسپائی ہو کیم ان فرام دی کولڈ‘‘ ہمارے پسندیدہ ناولوں میں سے ہے۔ یہ اسی دور کی کہا نی ہے جب دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ دیوار برلن کے اُس طرف اور دیوارِ برلن کے اِس طرف۔آہنی پردے کر اُس طرف اور آہنی پردے کے اِس طرف۔یہ ٹھنڈی جنگ یعنی ’کولڈ وار‘ کا قصہ ہے۔ اسی ناول میں چک پوائینٹ چارلی کا تذکرہ بھی موجود ہے جسے عبور کرتے ہوئے ایک کردار مشرقی جرمن فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔یہ وہی چیک پوائینٹ چارلی ہے جسے عبور کرکے ہم مشرقی برلن گئے تھے۔
اگلی صبح ہم میونچن پہنچ گئے اور سارا دن اسی طرح اس عظیم شہر کی سیر کی اور شام ڈھلے ایرلانگن کو سدھارے۔میونچن، نورمبرگ اور ایرلانگن، جرمن صوبے بویریا کا حصہ ہیں۔ بویریا کے رہنے والے بائر کہلاتے ہیں۔ ریشارڈ شرم بھی ایک بائر تھا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا۔ 
It’s nice to be a price but it’s higher to be a Bayar
’’پرائس ہونا اچھا ہے لیکن بائر ہونا زیادہ بہتر ہے۔‘‘
کہتے ہیں پرانے زمانے میں بویریا میں گھڑیاں الٹی چلتی تھیں۔ آج بھی بویریا کی گھڑیوں کی دکانوں پر آپ کو ایسی گھڑیاں مل جاتی ہیں جو کاؤنٹر کلاک وائز چلتی ہیں۔ ہم نے بھی میونچن سے ایک ایسی ہی دیوار گھڑی ( وال کلاک) مول لی جو الٹی چلتی تھی۔گھر لاکر اکثر ہم اپنے مہمانوں کو یہ عجیب و غریب گھڑی دِکھا کر حیران کردیا کرتے تھے۔
ہمارا ویک اینڈ ختم ہورہا تھا۔ کل سے پھر وہی ٹریننگ ہوگی اور وہی مصروفیات۔ اِس کورس میں ابھی ایک ہفتہ باقی ہے۔ اگلے ہفتے بابو بھی کراچی سے آرہے ہیں جن کے ساتھ ملکر ہم ایک دوسری ٹریننگ حاصل کریں گے، ایک دوسری جماعت کا حصہ بنیں گے۔ ہمارا کینیڈین دوست، ہمارا جرمن دوست ریشادڑ شرم اور سوین گنار اولسن سب اپنے اپنے گھروں کو سدھاریں گے، شاید پھر کبھی نہ ملنے کے لیے۔ٹرین جوں جوں ایرلانگن سے قریب ہوتی جاتی تھی، ہماری اداسی بڑھتی جاتی تھی۔ اے اداسی تجھے سلام۔