Wednesday, October 1, 2014

جیون میں ایک بار آنا سنگاپور
محمد خلیل الرحمٰن


یوں تو دلشاد بیگم کا دعوت نامہ، ‘‘ جیون میں ایک بار آنا سنگاپور’’


ہمیں کافی عرصے سے دعوتِ گناہ دے رہا تھا، لیکن جس بات نے ہمارے جذبہٗ شوق پر مہمیز کا کام دیا وہ کچھ اور تھی۔ ہوا یوں کہ ہم شب و روز کی یکسانیت سے تنگ آگئے۔ ڈاکڑوں اور طبیبوں کو دکھایا ، مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ جب ہمیں یقین ہوگیا کہ 


مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں


تو علاج کےلیے قدیمی حکما کے نسخوں کو ٹٹولا۔ کرنل شفیق الرحمٰن دور کی کوڑی لائے۔


‘‘ تم اس جمود کو توڑتے کیوں نہیں۔ صبح اٹھ کر رات کا کھانا کھایا کرو، پھر قیلولہ کرو ۔ سہہ پہر کو دفتر جائو، وہاں غسل کرو اور اور سنگل روٹی کا ناشتہ۔ حجام سے شیو کروائو اور حجام کا شیو خود کرو۔۔۔۔’’


یہ بھی کردیکھا، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ آخر کار تنگ آکر دوہفتہ کی چھٹی کے لیے درخواست داغ دی۔ جواب آیا۔ ‘‘ آپ کی چھٹی کی درخواست نامنظور کی جاتی ہے، اس لیے کہ کمپنی اس عرصے میں آپ کو تربیت کے لیے سنگاپور بھیج رہی ہے۔۔۔’’


کوئی جل گیا، کسی نے دعادی۔ زادِ سفر کا مرحلہ درپیش ہوا تو دوستوں سے مشورہ لیا۔ سیر کے لیے فلاں فلاں جگھیں ہیں۔ خرید و فروخت کے لیے فلاں فلاں، اور کھانے کے لیے فلاں فلاں ریسٹورینٹ۔ اور مساج کے لیے فلاں فلاں سنٹر۔ اور دیکھو، آرچرڈ روڈ سے کچھ مت خریدنا، اور نہ ہی اپنے ہوٹل کےمساج سنٹر سے مساج کروانا، یہ دونوں جگہیں مہنگی ہیں۔ فلاں اسٹریٹ سے بچنا، وہاں رات گیے وہ لوگ اپنا بازار لگاتے ہیں جو ہیوں میں نہ شیوں میں۔


ایک صاحب کہنے لگے، ‘‘ سنگاپور سے مساج ضرور کرواکے آنا’’ ۔‘‘ اور دیکھو! ’’ انھوں نے تاکیداً کہا، ‘‘ واپسی پر جھوٹ نہ کہنا کہ مساج کروا آئے ہو۔ مجھے اسکے تمام لوازمات معلوم ہیں۔ ’’
بھاگے بھاگے ایک اور دوست کے پاس پہنچے اور ‘‘ مساج کے لوازمات ’’ معلوم کیے، تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔
بڑی ردّ و قدح کے بعد، جس زاد سفر کا اہتمام کیا وہ یہ تھا۔ دوستوں کے مشوروں کا سوٹ کیس وزن بیس کلو اور ساتھ سفری بیگ میں کچھ کپڑے وغیرہ۔
ضروری کارروایئوں کے بعد پروانہ اور پرِ پرواز ہمیں عطا کردیے گئے۔  اور یوں ہم اسلام آباد سے سنگاپور کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ راستہ میں ایک کالی بلی راستہ کاٹ گئی تو   ہم نے اس نحوست کے تدارک کے لیے پہلے پشاور جانے کا فیصلہ کرلیا۔  یوں بھی خالہ خالو ہمارے قریب ترین رشتہ دار تھے۔( یہاں ہمارا مقصداسلام آباد میں رہتے ہوئے مکانی فاصلہ  کی قربت ہے)۔
پشاور پہنچے تو  خالہ اور خالو ہمیں دیکھ کر کھل  اٹھے۔  یہ آج سے کوئی بیس بائیس برس اُدھر،  اُن دنوں کا ذکر ہے جب آتش بھی جوان تھا اور ہم بھی۔پہلی پہلی نوکری ملی تھی اور اس سلسلے میں ہم اسلام آباد میں ، اپنے گھر،  کراچی اوراپنے  خاندان سے دور کالے پانی کی سزا کاٹ رہے تھے۔راول جھیل کے اسی کالے پانی میں اپنی گاڑی دھونےکے لیے کبھی کبھی جایا کرتے۔ خیر صاحب خالہ خالو نے دیکھا،  حال چال دریافت کیے، تو ہم پھٹ پڑے۔ فوراً  اگل دیا کہ ہم سنگاپور جارہے ہیں۔ خالو نے حیران ہوکر ہمیں دیکھا اور پھر ہمارے زادِ سفر کی جانب نگاہ کی  ،کہنے لگے۔‘‘ اور میاں۔ تمہارا باقی سامان کہاں ہے۔’’ ہم ہنس دیے ، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ ہمیں۔ مشوروں کے اس سوٹ کیس کے بارے میں انھیں کیسے بتلاتے۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے تو کیا، البتہ سنگاپور کی بے پردہ بیبیوں کے نام آتے تھے،   اور پھر یہ مشورے قابلِ گردن زدنی تو نہیں البتہ قابلِ گرفت ضرور تھے، اور ان پر‘‘ صرف بالغان کے لیے’’ کا ٹیگ لگانا پڑاتھا، اور اس محفل میں ان کا تذکرہ مخرّبِ اخلاق ضرور گردانا جاتا۔
خیر صاحب، خالو جان ہمارے اس مختصر زادِ راہ کو دیکھ کر باغ باغ ہوگئے۔کہنے لگے، ‘‘ اور ایک ہماری بیٹی صاحبہ ہیں، کہ وہ جب دوہفتوں کے لیے آسٹریلیا گئیں تو تین سوٹ کیس ان کے ساتھ گئے اور پانچ سوٹ کیس واپس آئے۔’’
کراچی پہنچے تو کراچی ائر پورٹ پر ہمارے ساتھ دو حادثے پیش آئے۔ دوستوں کے مشوروں کا سوٹ کیس اور پیمانہٗ صبر، دونوں ہی کھوئے گئے اور
چودھری صاحب ہمارے ہم سفر بنا دئیے گئے۔
کراچی پہنچ کر ایک دن کا آرام ملا تو کشاں کشاں گھر پہنچے اور گھر والوں کو یہ مژدہ جاں فزائ سنایا کہ ہم سنگاپور جارہے ہیں۔ گھر والوں نے دعا دی۔
‘‘ شکر ہے کہ اب تمہیں سنگاپور کی نوکری ملی۔ جس طرح پیٹھ دکھاتے ہو اسی چہرہ بھی دکھائو’’۔
‘‘چہرہ تو ہم تین ہفتے بعد ہی دکھا دیں گے۔ تین ہفتے کا تربیتی کورس ہے سنگاپور میں، کوئی مستقل نوکری تو نہیں۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں کوئی مستقل نوکری تھوڑا ہی تھی، چند ہفتے کی تربیت بھگتا کر واپس لوٹے تھے۔’’
بہرحال یہ خوشخبری بھی اپنی جگہ خوب تھی۔ سنگاپور کا تین ہفتے کا سفر۔ سب خوش ہوئے اور اگلے روز خوشی خوشی ہمیں رخصت کیا۔ہمارے سنگاپور کے سفر کے لیے کمپنی کی جانب سے تھائی ائر کی فلائیٹ پہلے ہی سے بک تھی۔جہاز پر پہنچے تو اندازہ ہوا کہ اک غولِ بیابانی ہے جو ہمیں اڑائے لیے چلا ہے۔ ذکر ان پری وشوں کا اور پھر بیاں اپنا۔ کیا کیا بتایئں اور کہاں تک سنائیں۔ ہم اور چودھری صاحب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے ان پری وشوں کی بلائیں لیا کیے۔جانے کب جہاز اڑا اور جانے کب بنکاک ائر پورٹ پر پہنچ گیا۔ ہمیں خبر ہی نہ ہوئی۔
ائر پورٹ  پر امیگریشن کاونٹر سے فارغ ہوئے تو رات کے ڈیڑھ بج رہے تھے۔ اب اگلی دوپہر دو بجے تک کے لیے ہم فارغ تھے۔ فوراً  انفارمیشن سے رجوع کیا اور ان کے مشورے سے رات کے لیے ایک ہوٹل پسند کرلیا اور وہیں پر اگلے دن صبح ایک عدد ٹوور کا انتظام بھی کرلیا۔ٹیکسی پکڑکر ہوٹل پہنچے، اور کمرے میں جاکر اگلی صبح تک یوں انٹا غفیل ہوئے کہ   اگلی صبح ناشتے کے لیے بڑی مشکل سے آنکھ کھلی۔ فوراً تیار ہوکر لاونج میں پہنچے، ناشتے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ہمیں ٹوور گائڈ کی آمد کی اطلاع دی گئی۔ ٹوور گائڈ کو دیکھا تو باچھیں کھل گئیں، یہ ایک خوبصورت سی خاتون تھیں۔   ان خوبصورت خاتون کی معیت میں تو ہم کہیں بھی جانے کے لیے تیار ہوجاتے، یہ تو پھر بھی بنکاک کے مشہور بدھ عبادت گاہوں کا  ٹوور تھا۔ آج سے کم و بیش بیس سال پہلے کا بنکاک  ویسے تو یوں بھی بہت خوبصورت تھا، لیکن ان خوبصورت عبادت گاہوں نے تو اسے چار چاند لگا دیے تھے۔  ان تین گھنٹوں میں ہم نے چار عبادت گاہوں کا دورہ کیا جن میں گولڈن ٹمپل اور ٹمپل آف ریکلائیننگ بدھا بہت خوب تھے۔ بدھا کے یہ  سنہری مجسمے جو  ان عبادت گاہوں میں تھے، بہت بلند و بالا تھے لیکن  ہم ان کا موازنہ لاہور میوزیم میں رکھے ہوئے اس مجسمے سے کر رہے تھے جس میں بدھا کو درخت کے ینچے تپسیا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ چھوٹا سا مجسمہ اپنی خوبصورتی اور صناعی کا یقیناً ایک اعلی نمونہ ہے، اور بنکاک کے ان عبادت گاہوں میں بنائے ہوئے یہ عالی شان مجسمے اس کے سامنے ہیچ تھے۔ادھر چھوٹے چھوٹے مجسموں کی شکل میں بدھا کی زندگی کے حالات بھی منقش کیے گیے تھے۔   ایک طرف تو انسانی کاری گری کے یہ اعلیٰ نمو نے تھے اور دوسری طرف انسان تھے جو اپنے ہی بنائے ہوئے ان مجسموں کی عبادت کررہے تھے۔ کتنا بڑا ظلم تھا اس انسان کے ساتھ ، جو انھیں انسانیت سکھانے اور اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیےان کے پاس  آیا اور ان  ظالم لوگوں نے اس کی ہی پوجا شروع کردی۔
ظلم کی اس داستان میں جو ظلم ہمارے ساتھ ہوا وہ  بھی ساتھ ساتھ بیان کرتے چلیں۔ جب ہم سنگاپور کا سفر ختم کرکے واپس پاکستان پہنچے اور یار دوستوں نے اس سفر کا حال دریافت کیا اورسن کر  اس پر تبصرے کیے تو ہمیں حقیقتِ حال کا ادراک ہوا۔دراصل کمپنی والے نوجوان لوگوں کی خواہشات کے عین مطابق انھیں بنکاک میں ایک دن کا حضر عطا فرمایا کرتے تھے،  تاکہ نوجوان اپنے دل کی تسلی کرلیں۔ ہم اور آگے بڑھے اور اس ہوٹل کا تذکرہ کیا جہاں پر ہم نے رات قیام کیا تھا،  تو سننے والوں نے سر پیٹ لیا۔ یہی تو وہ علاقہ تھا جہاں پر ہم  کچھ ‘دل پشوری ’کر سکتے تھے۔
خیر صاحب، ولے بخیر گزشت۔ بنکاک کی سیر سے فارغ ہوئے تو فوراً ہوٹل کا حساب بیباق کیا اور ائر پورٹ کی جانب دوڑ لگائی تاکہ سنگاپورکی جانب عازمِ سفر ہوسکیں۔ باقی سفر جو نسبتاً مختصر تھا آرام سے گزر گیا اور ہم سنگاپور ائر پورٹ پر اتر گئے۔ ائر پورٹ پر پاسپورٹ اور امیگریشن کی لائن میں لگے ہوئے نہایت انہماک سے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے کہ اچانک ایک باوردی آفیسر نے ہمیں لائن سے علیحدہ ہونے کا اشارہ کیا اور اپنے ساتھ لے کر ایک جانب کو چل دیا۔ ہم حیران تھے کہ یا الٰہی یہ ماجرہ کیا ہے، کیوں اس آفیسر نے ہمیں ساتھ لے لیا ہے۔ ابھی ہم اس سے پوچھنے کے لیے اپنی انگریزی کو آواز دے ہی رہے تھے کہ وہ ہمیں لے کر ایک چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوا ۔ سامنے  ایک اور آفیسر کے سامنے ایک پٹھان بھائی  بیٹھے تھے،  یہ بھائی صاحب پشتو اور ٹوٹی پھوٹی اردو کے علاوہ اور کچھ نہ جانتے تھے اور یہاں سنگاپور میں کپڑا خریدنے آئے تھے۔۔ ہم نے فوراً مترجم کے فرائض سنبھال لیے اور ان حضرت سے ان کے بارے میں پوچھ پوچھ کر آفیسر حضرات کو بتانے لگے۔  یہ مسئلہ حل ہوا تو ہم پھر اپنی لائن میں جاکر لگ گئے اور اس طرح سنگاپور کا ایک ماہ کا ویزہ لگواکر ہی دم لیا۔ ادھر چودھری صاحب ہم سے پہلے ہی فارغ ہوکر ہمارا انتظار کررہے تھے۔ ہمارے فارغ ہونے پر وہ بھی ہمارے ساتھ چل پڑے ، ہم دونوں نے اپنا سامان سنبھالا اور ٹیکسی کی لائن میں کھڑے ہوگئے۔  نہایت اعلیٰ درجے کی گاڑیوں کو ٹیکسی کے طور پر کھڑے دیکھ کر ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ کہیں ہم وی وی آئی پی یعنی کوئی بہت ہی اعلیٰ شخصیت تو نہیں ہوگئے؟ اپنے بازو پر زور سے چٹکی لی تو درد کی شدید لہر اور ‘سی’ کی اپنی ہی آواز نے ہمیں جتلا دیا کہ ہم خواب نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ  سنگاپور کی ٹیکسی میں سفر کیا چاہتے  ہیں۔ ہم نے اپنی اُسی افلاطونی انگریزی کو آواز دی جس کے ذریعے ابھی ابھی ہم ایک معرکہِ عظیم طے کرکے آرہے تھے اور بھائو تائو کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ خدا جانے یہ ٹیکسی ڈرائیور ہمارے ہوٹل کی جانب جانا چاہتا  ہو یا اس کا ارادہ کسی اور جانب کا ہے؟   کیا جانیے وہ منھ پھاڑ کر کتنے پیسے مانگے؟   کیا ہمیں کوئی سستی ٹیکسی مل سکتی ہے؟    ہم ابھی اسی ادھیڑ بُن میں تھے کہ ٹیکسی ڈرائیور نے بھائو کیا اور نہ تائو،    بلکہ یوں کہیے کہ آئو دیکھا نہ تائو اور نہایت ادب سے ہمارا سامان ڈِگی میں رکھا ، ہمیں گاڑی میں بٹھایا اور میٹر پرلگے ایک بٹن کو دبا کر چلنے کے لیے تیار ہوگیا۔
اور صاحبو! یوں ہم ‘ اپر  بوکے تیما روڈ’  پر واقع ‘ نووٹیل آرکڈ   اِن’  نامی ایک نہایت عالیشان ہوٹل میں پدھارے۔بکنگ کلرک مصروف تھا۔ اس نے نہایت ادب سے ہمیں ایک میز کی جانب بلایا اور ہمیں بٹھا کر ایک سنگاپوری حور کو آواز دی، وہ حسن کی دیوی فوراً ہماری جانب لپکی اور اپنی ایک ٹانگ  لبادے سےنکال،   کاغذ پینسل سنبھال ، ہمارا آرڈر لینے کے لیے تیار ہوگئی۔ ہم نے کنکھیوں سے اس شمشیرِ برہنہ کی جانب دیکھتے ہوئے اک شانِ بے نیازی کے ساتھ آرینج جوس کا حکم صادر فرمایا۔ چودھری صاحب نے بھی کنکھیوں سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے  ‘وہی وہی’  کی آواز نکالی۔ حسنِ بے پروا نے فوراً اپنے کاغذ پر کچھ لکھا اور اسے لپیٹتی ہوئی آگے چلدی۔ ہم  یوں چونکے گویا ابھی ابھی ہماری آنکھ کھلی ہو۔ ہم نے چونک کر چاروں جانب دیکھا۔ ہمارے اطراف  رنگ و نور کی اک عجیب دنیا پھیلی ہوئی تھی۔ تو یہ سنگاپور ہے، ہم نے ترنگ میں آکر سوچا۔
ہم نے آرینج جوس کے ہلکے ہلکے گھونٹ لیتے ہوئے چیک اِن کیا اور اپنےاپنے کمرے میں جاکر ڈھیر ہوگئے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد جب ہوش ٹھکانے لگے اور رات کی بے آرامی کا کچھ مداوا ہوا تو دوپہر کے کھانے کا خیال دل کو ستانے لگا۔ ہوٹل کا کھانا بہت مہنگا پڑتا لہٰذا دونوں دوست ہوٹل سے نکلے اور کسی سستے ریسٹورینٹ کی تلاش شروع کی۔ دور دور تک ایسے کسی ریسٹورینٹ کا پتہ نہ چلا تو تھک ہار کر واپس ہوئے ہی تھے کہ ایک اسٹور پر نظر پڑی۔ چودھری صاحب نے مسکرا کر ہمیں معنی خیز نظروں سے  دیکھا گویا کہہ رہے ہوں، ‘‘ اب دیکھو ! میں کیا کرتا ہوں۔’’،  ایک عدد ڈبل روٹی خریدی اور ہمیں لیے ہوئے اپنے کمرے کی جانب آگئے۔ کمرے میں پہنچ کر دروازہ لاک کیا اور اپنے سوٹ کیس میں سے ایک عدد بجلی کی ہیٹنگ  راڈ  برآمد کی،  اسے  قریب ترین بجلی کے ساکٹ میں لگا کر اس کا سرا ایک پانی کے برتن میں ڈال دیا ۔ پانی گرم ہونا شروع ہوا،  اتنے میں انھوں نے اپنے سوٹ کیس سے‘ احمد’ کا کوفتوں کے سالن کا سربند کین نکالا،  اسے پانی میں رکھ کر خوب گرم کیا اور اسے کھول کر پلیٹ میں ڈال دیا۔ اس طرح ہم نے اس دوپہر اپنی بھوک مٹائی اور سیر کے لیے نکل پڑے۔  آج اتوار تھا اور ہم نے سن رکھا تھا کہ سنگاپور میں ایک جگہ ‘ لٹل انڈیا’  نامی بھی ہے جہاں ہندوستانی کھانوں کے سستے ریسٹورینٹ موجود ہیں نیز یہ کہ وہاں پر دکانیں اتوار کے دن بھی کھلی رہتی ہیں۔
بس کے ذریعے سرنگون روڈ کے اسٹاپ پر اترے تو کچھ اور ہی سماں تھا۔ ہر طرف سجی سجائی  ہندوستانی طرز کی دکانیں موجود تھیں جن میں قسم قسم کی ہندوستانی اشیائ فروخت کے لیے موجود تھیں ۔کہیں زرق برق بھڑکیلی ، بنارسی ہندوستانی ساڑھیاں اور دیگر ہندوستانی کپڑے ، کہیں سونے اور چاندی کے جڑائو زیور۔کہیں ہندوستانی موسیقی پر مبنی کیسٹ اور سی ڈیاں ۔ اور ان دکانوں کے درمیان خالص ہندوستانی کھانے سرو کرتے ریسٹورینٹ۔کہیں  روا  ڈوسا اور مسالہ ڈوسا، کہیں اڈلی  وڑہ،  کہیں تھالی ریسٹورینٹ ، جہاں پر آپکی پسند کے مطابق اسٹیل کی تھالی میں  یا کیلے کے پتے پر کھانا دیا جاتا ہے۔کہیں صرف ویجیٹیرین یعنی سبزیوں والے کھانے ، کہیں بسم اللہ بریانی ۔کہیں ہندوستانی مٹھائیاں۔چوک سے چلنا شروع کیا تو ایک جگہ ‘مصطفےٰ اینڈ شمس الدین کی دکان نظر آئی۔ یہ ان کی سب سے پرانی دکان ہے۔  نظارہ کرتے چلے تو لطف آگیا۔ یوں تو اس سڑک کا نام سرنگون روڈہے لیکن اطراف میں چونکہ ہر طرف ہندوستانی آباد ہیں اور ان ہی کی دکانیں نظر آتی ہیں ، لہٰذا   اسے  لٹل انڈیا یعنی‘ چھوٹا ہندوستان’ کہا جاتا ہے۔  یہ بازار یونہی پھیلتا ہوا اگلے چوک تک پہنچتا ہے جہاں پر اُس زمانے میں سرنگون پلازہ میں مصطفےٰ اینڈ شمس الدین کا بڑا اسٹور ہوتا تھا،  اب اس جگہ،   اس سے بھی بڑا مصطفےٰ سنٹر ہے۔مصطفےٰ سنٹر اب ایک بہت بڑا ملٹی اسٹوری ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہے جہاں ضروریاتِ زندگی کی تقریباً ہر چیز ملتی ہے۔آجکل،  جب سے زمین دوز ٹرین ( جسے مقامی لوگ  ایم آر ٹی یعنی    ماس ریپڈ ٹرانزٹ کہتے ہیں) چلی ہے اس کے دو اسٹیشن سرنگون روڈ پر ہیں۔ ایک  بکے تیما  روڈ اور سرنگون روڈ کے  سنگم پر اور دوسرا مصطفےٰ سنٹر سے صرف چند قدم کے فاصلے پر۔سرنگون روڈ پر چلتے ہوئے    راستے میں ایک ہندو مندر اور مصطفےٰ سنٹر کے عین سامنے انگولیا مسجد واقع ہے ،بھی نظر آتے ہیں۔  اتوار کو تو یوں لگتا ہے گویا سڑک پر ایک جلوس چل رہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان سے آنے والے زیادہ تر اسی علاقے میں پہنچ کر کھانا کھاتے ہیں اور اپنی زیادہ تر خریداری یہیں سے کرتے ہیں۔ بسم اللہ ریسٹورینٹ میں ایک بزرگ ویٹر کے طور پر کام کرتے ہیں ،  ان سے گفتگو کی تو پتہ چلا کہ ‘مصطفےٰ بھائی’ ہندوستان سے آئے تو  شروع میں ایک ٹھیلا لگاتے تھے، ایک صاحب اپنی دکان بیچ کر ہندوستان جارہے تھے۔  مصطفےٰ بھائی نے ان سے دکان خرید لی۔ اللہ نے برکت دی اور کاروبار اتنا بڑھا کہ اب ماشائ اللہ مصطفےٰ سنٹر چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے اور روزآنہ ہزاروں خریدار خریداری کے لیے آتے ہیں اور لاکھوں کی خریداری کرتے ہیں۔
وہیں سے کٹ مارا اور سیدھے ہاتھ کی طرف ہولیے۔ چلتے چلتے راستے میں عرب اسٹریٹ نظر آئی، دیکھ کر دل خوش ہوا ، وہیں سے نظر گھمائی تو دل پہلو میں رکتا ہوا سا محسوس ہوا۔ نظروں کے سامنے ایک انتہائی خوبصورت مسجد موجود تھی۔ تیز تیز چلتے ہوئے اس مسجد تک پہنچے۔ اس خوبصوت اورعالی شان  مسجد کا نام ‘‘ مسجد سلطان’’  ہے۔مسجد باہر سے جتنی خوبصورت نظر آتی ہے، اندر سے بھی اتنی ہی خوبصورت ہے۔  اندر جاکر دو رکعت نمازِ عصر قصر پڑھی، کچھ تصویریں اندر باہر سے کھینچیں اور پھر عرب اسٹریٹ پر نظر کی تو یہاں کئی ملائین مسلم ریسٹورینٹ دکھائی دیئے جو انڈا پراٹھا قسم کی کوئی چیز بنا رہے تھے۔ اس ڈش کا نام مرطباق ہے۔ چائے کے ساتھ مرطباق کھایا۔ بہت لذیذ تھا۔ واپس اسی راستے سے لوٹے اور سرنگون روڈ پہنچے اور دیر تک وہاں ٹہل لگاتے رہے۔ 
راستے میں ایک جگہ ایک ریسٹورینٹ پر‘‘ عظمی ہوٹل’’  لکھا ہوا دیکھا تو قسمت آزمانے کا خیال آیا۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں پر کسی بھی ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے سے پہلے حلال وغیرہ سے متعلق پوچھ لیا کرتے تھے۔ یہاں بھی خیال آیا کہ پہلے دل کی تسلی کرلی جائے اس لیے اسی عظمی ہوٹل کے کاونٹر پر جاکر ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا یہاں حلال کھانا ملتا ہے۔ کرتا پائجامہ میں ملبوس ایک مولانا کاونٹر پر کھڑے تھے، برا مان کر بولے۔
‘‘عظمی ہوٹل نام ہے، سب کام کرنے والے یہاں مسلمان ہیں اور یہاں پر ہر کھانا حلال ہے۔’’
 دل کو تسلی ہوئی تو ہم نے رات کا کھانا وہیں سے کھایا اور بس میں بیٹھ کر ہوٹل واپس لوٹ گئے۔ دروازے سے اندر آتے ہی کئی کارڈوں پر نظر پڑی جو دروازے کے نیچے سے کمرے میں ڈالے گئے تھے۔ یہ کارڈ مختلف مساج سنٹرز سے متعلق تھے۔ انھیں ردی کی ٹوکری میں ڈالا اور کمرے میں ادھر ادھر نظر ڈالی۔ کمرے  میں موجود  ریفریجریٹر کے قریب بجلی کی کیتلی اور ساتھ ہی ایک طشت میں  دو عدد چائے اور دو عدد کافی کا انتظام تھا جو ہوٹل کی جانب سے مفت تھا۔ مزے سے چائے بنا کر پی ،    آنے والے کل کی تیاری کرکے بستر پر لیٹ گئے اور ٹیلیویژن سے دل بہلانے لگے۔ چیک اِن کے ساتھ ہی کمپنی کی جانب سے ایک خط ہمیں مل چکا تھا کہ اگلے روز ایک بس ہمیں ہوٹل کی لابی سے لیکر ٹریننگ سنٹر تک لیجائے گی، لہٰذا اس طرف سے اطمینان تھا۔ سفر کی تھکن اب تک محسوس ہورہی تھی  اس لیے لیٹے تو اگلے ہی لمحے گہری نیند نے ہمیں آدبوچا۔جانے کب تک سوتے رہے۔ اچانک ٹیلیفون کی مسلسل  گھنٹی کی آواز سے بیدار ہوئے۔ کچھ دیر تک تو سمجھ ہی میں نہ آیا کہ ہم کہاں  ہیں اور اس وقت کے بجے ہیں۔ حواس باختہ سے لیٹے رہے۔ بارے کچھ سکون ملا تو رسیور اٹھا کر ‘‘ ہیلو!’’ کہا۔
کسی خاتون کی میٹھی سی آواز سنائی دی۔وہ انگریزی میں کچھ کہہ رہی تھیں۔ آپ نے ہمیں بلایا؟
ہمارے حواس دوبارہ گم ہوگئے۔ بڑی مشکل سے انھیں پھر سے مجتمع کیا اور نہایت تلخ لہجے میں جواب دیا۔ جی نہیں۔ ہم نے آپ کو کال کیا نہ بلایا۔ اور رسیور کریڈل پر پٹخ کر دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگے۔ پھر اٹھے، حوائج ضروریہ سے فارغ ہوکر ٹیلیویژن کو بند کیا۔ لائٹ بند کی اور کافی دیر تک دھڑکتے دل کو سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے۔


No comments:

Post a Comment