Tuesday, April 19, 2011

جیون میں ایک بار آنا سنگاپور

جیون میں ایک بار آنا سنگاپور
محمد خلیل الرحمٰن
یوں تو دلشاد بیگم کا دعوت نامہ،      ‘‘ جیون میں ایک بار آنا سنگاپور’’
ہمیں کافی عرصے سے دعوتِ گناہ دے رہا تھا، لیکن جس بات نے ہمارے جذبہٗ شوق پر مہمیز کا کام دیا وہ کچھ اور تھی۔ ہوا یوں کہ ہم شب و روز کی یکسانیت سے تنگ آگئے۔ ڈاکڑوں اور طبیبوں کو دکھایا ، مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ جب ہمیں یقین ہوگیا کہ
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں
تو علاج کےلیے قدیمی حکما کے نسخوں کو ٹٹولا۔ کرنل شفیق الرحمٰن دور کی کوڑی لائے۔
‘‘ تم اس جمود کو توڑتے کیوں نہیں۔ صبح اٹھ کر رات کا کھانا کھایا کرو، پھر قیلولہ کرو ۔ سہہ پہر کو دفتر جائو، وہاں غسل کرو اور اور سنگل روٹی کا ناشتہ۔ حجام سے شیو کروائو اور حجام کا شیو خود کرو۔۔۔۔’’
یہ بھی  کردیکھا، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔  آخر کار تنگ آکر دوہفتہ کی چھٹی کے لیے درخواست داغ دی۔ جواب آیا۔ ‘‘ آپ کی چھٹی کی درخواست نامنظور کی جاتی ہے، اس لیے کہ کمپنی اس عرصے میں آپ کو تربیت کے لیے سنگاپور بھیج رہی ہے۔۔۔’’
کوئی جل گیا، کسی نے دعادی۔ زادِ سفر کا مرحلہ درپیش ہوا تو دوستوں سے مشورہ لیا۔ سیر کے لیے فلاں فلاں جگھیں ہیں۔ خرید و فروخت کے لیے فلاں فلاں، اور کھانے کے لیے فلاں فلاں ریسٹورینٹ۔ اور مساج کے لیے فلاں فلاں سنٹر۔ اور دیکھو، آرچرڈ روڈ سے کچھ مت خریدنا، اور نہ ہی اپنے ہوٹل  کےمساج سنٹر سے مساج کروانا، یہ دونوں جگہیں مہنگی ہیں۔ فلاں اسٹریٹ سے بچنا، وہاں رات گیے وہ لوگ اپنا بازار لگاتے ہیں جو ہیوں میں نہ شیوں میں۔
ایک صاحب کہنے لگے، ‘‘ سنگاپور سے مساج ضرور کرواکے آنا’’  ۔‘‘ اور دیکھو! ’’ انھوں نے تاکیداً کہا،  ‘‘ واپسی پر جھوٹ نہ کہنا کہ مساج کروا آئے ہو۔ مجھے اسکے تمام لوازمات معلوم ہیں۔ ’’
بھاگے بھاگے ایک اور دوست کے پاس پہنچے اور ‘‘ مساج کے لوازمات ’’ معلوم کیے، تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔
بڑی ردّ و قدح کے بعد، جس زاد سفر کا اہتمام کیا وہ یہ تھا۔ دوستوں کے مشوروں کا سوٹ کیس وزن بیس کلو اور ساتھ سفری بیگ میں کچھ کپڑے وغیرہ۔
ضروری کارروایئوں کے بعد پروانہ اور پرِ پرواز ہمیں عطا کردیے گئے۔  اور یوں ہم اسلام آباد سے سنگاپور کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ راستہ میں ایک کالی بلی راستہ کاٹ گئی تو   ہم نے اس نحوست کے تدارک کے لیے پہلے پشاور جانے کا فیصلہ کرلیا۔  یوں بھی خالہ خالو ہمارے قریب ترین رشتہ دار تھے۔( یہاں ہمارا مقصداسلام آباد میں رہتے ہوئے مکانی فاصلہ  کی قربت ہے)۔
پشاور پہنچے تو  خالہ اور خالو ہمیں دیکھ کر کھل  اٹھے۔  یہ آج سے کوئی بیس بائیس برس اُدھر،  اُن دنوں کا ذکر ہے جب آتش بھی جوان تھا اور ہم بھی۔پہلی پہلی نوکری ملی تھی اور اس سلسلے میں ہم اسلام آباد میں ، اپنے گھر،  کراچی اوراپنے  خاندان سے دور کالے پانی کی سزا کاٹ رہے تھے۔راول جھیل کے اسی کالے پانی میں اپنی گاڑی دھونےکے لیے کبھی کبھی جایا کرتے۔ خیر صاحب خالہ خالو نے دیکھا،  حال چال دریافت کیے، تو ہم پھٹ پڑے۔ فوراً  اگل دیا کہ ہم سنگاپور جارہے ہیں۔ خالو نے حیران ہوکر ہمیں دیکھا اور پھر ہمارے زادِ سفر کی جانب نگاہ کی  ،کہنے لگے۔‘‘ اور میاں۔ تمہارا باقی سامان کہاں ہے۔’’ ہم ہنس دیے ، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ ہمیں۔ مشوروں کے اس سوٹ کیس کے بارے میں انھیں کیسے بتلاتے۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے تو کیا، البتہ سنگاپور کی بے پردہ بیبیوں کے نام آتے تھے،   اور پھر یہ مشورے قابلِ گردن زدنی تو نہیں البتہ قابلِ گرفت ضرور تھے، اور ان پر‘‘ صرف بالغان کے لیے’’ کا ٹیگ لگانا پڑاتھا، اور اس محفل میں ان کا تذکرہ مخرّبِ اخلاق ضرور گردانا جاتا۔
خیر صاحب، خالو جان ہمارے اس مختصر زادِ راہ کو دیکھ کر باغ باغ ہوگئے۔کہنے لگے، ‘‘ اور ایک ہماری بیٹی صاحبہ ہیں، کہ وہ جب دوہفتوں کے لیے آسٹریلیا گئیں تو تین سوٹ کیس ان کے ساتھ گئے اور پانچ سوٹ کیس واپس آئے۔’’
کراچی پہنچے تو کراچی ائر پورٹ پر ہمارے ساتھ دو حادثے پیش آئے۔ دوستوں کے مشوروں کا سوٹ کیس اور پیمانہٗ صبر، دونوں ہی کھوئے گئے اور
چودھری صاحب ہمارے ہم سفر بنا دئیے گئے۔
کراچی پہنچ کر ایک دن کا آرام ملا تو کشاں کشاں گھر پہنچے اور گھر والوں کو یہ مژدہ جاں فزائ سنایا کہ ہم سنگاپور جارہے ہیں۔ گھر والوں نے دعا دی۔
‘‘ شکر ہے کہ اب تمہیں سنگاپور کی نوکری ملی۔ جس طرح پیٹھ دکھاتے ہو اسی چہرہ بھی دکھائو’’۔
‘‘چہرہ تو ہم تین ہفتے بعد ہی دکھا دیں گے۔ تین ہفتے کا تربیتی کورس ہے سنگاپور میں، کوئی مستقل نوکری تو نہیں۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں کوئی مستقل نوکری تھوڑا ہی تھی، چند ہفتے کی تربیت بھگتا کر واپس لوٹے تھے۔’’
بہرحال یہ خوشخبری بھی اپنی جگہ خوب تھی۔ سنگاپور کا تین ہفتے کا سفر۔ سب خوش ہوئے اور اگلے روز خوشی خوشی ہمیں رخصت کیا۔ہمارے سنگاپور کے سفر کے لیے کمپنی کی جانب سے تھائی ائر کی فلائیٹ پہلے ہی سے بک تھی۔جہاز پر پہنچے تو اندازہ ہوا کہ اک غولِ بیابانی ہے جو ہمیں اڑائے لیے چلا ہے۔ ذکر ان پری وشوں کا اور پھر بیاں اپنا۔ کیا کیا بتایئں اور کہاں تک سنائیں۔ ہم اور چودھری صاحب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے ان پری وشوں کی بلائیں لیا کیے۔جانے کب جہاز اڑا اور جانے کب بنکاک ائر پورٹ پر پہنچ گیا۔ ہمیں خبر ہی نہ ہوئی۔
ائر پورٹ  پر امیگریشن کاونٹر سے فارغ ہوئے تو رات کے ڈیڑھ بج رہے تھے۔ اب اگلی دوپہر دو بجے تک کے لیے ہم فارغ تھے۔ فوراً  انفارمیشن سے رجوع کیا اور ان کے مشورے سے رات کے لیے ایک ہوٹل پسند کرلیا اور وہیں پر اگلے دن صبح ایک عدد ٹوور کا انتظام بھی کرلیا۔ٹیکسی پکڑکر ہوٹل پہنچے، اور کمرے میں جاکر اگلی صبح تک یوں انٹا غفیل ہوئے کہ   اگلی صبح ناشتے کے لیے بڑی مشکل سے آنکھ کھلی۔ فوراً تیار ہوکر لاونج میں پہنچے، ناشتے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ہمیں ٹوور گائڈ کی آمد کی اطلاع دی گئی۔ ٹوور گائڈ کو دیکھا تو باچھیں کھل گئیں، یہ ایک خوبصورت سی خاتون تھیں۔   ان خوبصورت خاتون کی معیت میں تو ہم کہیں بھی جانے کے لیے تیار ہوجاتے، یہ تو پھر بھی بنکاک کے مشہور بدھ عبادت گاہوں کا  ٹوور تھا۔ آج سے کم و بیش بیس سال پہلے کا بنکاک  ویسے تو یوں بھی بہت خوبصورت تھا، لیکن ان خوبصورت عبادت گاہوں نے تو اسے چار چاند لگا دیے تھے۔  ان تین گھنٹوں میں ہم نے چار عبادت گاہوں کا دورہ کیا جن میں گولڈن ٹمپل اور ٹمپل آف ریکلائیننگ بدھا بہت خوب تھے۔ بدھا کے یہ  سنہری مجسمے جو  ان عبادت گاہوں میں تھے، بہت بلند و بالا تھے لیکن  ہم ان کا موازنہ لاہور میوزیم میں رکھے ہوئے اس مجسمے سے کر رہے تھے جس میں بدھا کو درخت کے ینچے تپسیا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ چھوٹا سا مجسمہ اپنی خوبصورتی اور صناعی کا یقیناً ایک اعلی نمونہ ہے، اور بنکاک کے ان عبادت گاہوں میں بنائے ہوئے یہ عالی شان مجسمے اس کے سامنے ہیچ تھے۔ادھر چھوٹے چھوٹے مجسموں کی شکل میں بدھا کی زندگی کے حالات بھی منقش کیے گیے تھے۔   ایک طرف تو انسانی کاری گری کے یہ اعلیٰ نمو نے تھے اور دوسری طرف انسان تھے جو اپنے ہی بنائے ہوئے ان مجسموں کی عبادت کررہے تھے۔ کتنا بڑا ظلم تھا اس انسان کے ساتھ ، جو انھیں انسانیت سکھانے اور اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیےان کے پاس  آیا اور ان  ظالم لوگوں نے اس کی ہی پوجا شروع کردی۔
ظلم کی اس داستان میں جو ظلم ہمارے ساتھ ہوا وہ  بھی ساتھ ساتھ بیان کرتے چلیں۔ جب ہم سنگاپور کا سفر ختم کرکے واپس پاکستان پہنچے اور یار دوستوں نے اس سفر کا حال دریافت کیا اورسن کر  اس پر تبصرے کیے تو ہمیں حقیقتِ حال کا ادراک ہوا۔دراصل کمپنی والے نوجوان لوگوں کی خواہشات کے عین مطابق انھیں بنکاک میں ایک دن کا حضر عطا فرمایا کرتے تھے،  تاکہ نوجوان اپنے دل کی تسلی کرلیں۔ ہم اور آگے بڑھے اور اس ہوٹل کا تذکرہ کیا جہاں پر ہم نے رات قیام کیا تھا،  تو سننے والوں نے سر پیٹ لیا۔ یہی تو وہ علاقہ تھا جہاں پر ہم  کچھ ‘دل پشوری ’کر سکتے تھے۔
خیر صاحب، ولے بخیر گزشت۔ بنکاک کی سیر سے فارغ ہوئے تو فوراً ہوٹل کا حساب بیباق کیا اور ائر پورٹ کی جانب دوڑ لگائی تاکہ سنگاپورکی جانب عازمِ سفر ہوسکیں۔ باقی سفر جو نسبتاً مختصر تھا آرام سے گزر گیا اور ہم سنگاپور ائر پورٹ پر اتر گئے۔ ائر پورٹ پر پاسپورٹ اور امیگریشن کی لائن میں لگے ہوئے نہایت انہماک سے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے کہ اچانک ایک باوردی آفیسر نے ہمیں لائن سے علیحدہ ہونے کا اشارہ کیا اور اپنے ساتھ لے کر ایک جانب کو چل دیا۔ ہم حیران تھے کہ یا الٰہی یہ ماجرہ کیا ہے، کیوں اس آفیسر نے ہمیں ساتھ لے لیا ہے۔ ابھی ہم اس سے پوچھنے کے لیے اپنی انگریزی کو آواز دے ہی رہے تھے کہ وہ ہمیں لے کر ایک چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوا ۔ سامنے  ایک اور آفیسر کے سامنے ایک پٹھان بھائی  بیٹھے تھے،  یہ بھائی صاحب پشتو اور ٹوٹی پھوٹی اردو کے علاوہ اور کچھ نہ جانتے تھے اور یہاں سنگاپور میں کپڑا خریدنے آئے تھے۔۔ ہم نے فوراً مترجم کے فرائض سنبھال لیے اور ان حضرت سے ان کے بارے میں پوچھ پوچھ کر آفیسر حضرات کو بتانے لگے۔  یہ مسئلہ حل ہوا تو ہم پھر اپنی لائن میں جاکر لگ گئے اور اس طرح سنگاپور کا ایک ماہ کا ویزہ لگواکر ہی دم لیا۔ ادھر چودھری صاحب ہم سے پہلے ہی فارغ ہوکر ہمارا انتظار کررہے تھے۔ ہمارے فارغ ہونے پر وہ بھی ہمارے ساتھ چل پڑے ، ہم دونوں نے اپنا سامان سنبھالا اور ٹیکسی کی لائن میں کھڑے ہوگئے۔  نہایت اعلیٰ درجے کی گاڑیوں کو ٹیکسی کے طور پر کھڑے دیکھ کر ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ کہیں ہم وی وی آئی پی یعنی کوئی بہت ہی اعلیٰ شخصیت تو نہیں ہوگئے؟ اپنے بازو پر زور سے چٹکی لی تو درد کی شدید لہر اور ‘سی’ کی اپنی ہی آواز نے ہمیں جتلا دیا کہ ہم خواب نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ  سنگاپور کی ٹیکسی میں سفر کیا چاہتے  ہیں۔ ہم نے اپنی اُسی افلاطونی انگریزی کو آواز دی جس کے ذریعے ابھی ابھی ہم ایک معرکہِ عظیم طے کرکے آرہے تھے اور بھائو تائو کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ خدا جانے یہ ٹیکسی ڈرائیور ہمارے ہوٹل کی جانب جانا چاہتا  ہو یا اس کا ارادہ کسی اور جانب کا ہے؟   کیا جانیے وہ منھ پھاڑ کر کتنے پیسے مانگے؟   کیا ہمیں کوئی سستی ٹیکسی مل سکتی ہے؟    ہم ابھی اسی ادھیڑ بُن میں تھے کہ ٹیکسی ڈرائیور نے بھائو کیا اور نہ تائو،    بلکہ یوں کہیے کہ آئو دیکھا نہ تائو اور نہایت ادب سے ہمارا سامان ڈِگی میں رکھا ، ہمیں گاڑی میں بٹھایا اور میٹر پرلگے ایک بٹن کو دبا کر چلنے کے لیے تیار ہوگیا۔
اور صاحبو! یوں ہم ‘ اپر  بوکے تیما روڈ’  پر واقع ‘ نووٹیل آرکڈ   اِن’  نامی ایک نہایت عالیشان ہوٹل میں پدھارے۔بکنگ کلرک مصروف تھا۔ اس نے نہایت ادب سے ہمیں ایک میز کی جانب بلایا اور ہمیں بٹھا کر ایک سنگاپوری حور کو آواز دی، وہ حسن کی دیوی فوراً ہماری جانب لپکی اور اپنی ایک ٹانگ  لبادے سےنکال،   کاغذ پینسل سنبھال ، ہمارا آرڈر لینے کے لیے تیار ہوگئی۔ ہم نے کنکھیوں سے اس شمشیرِ برہنہ کی جانب دیکھتے ہوئے اک شانِ بے نیازی کے ساتھ آرینج جوس کا حکم صادر فرمایا۔ چودھری صاحب نے بھی کنکھیوں سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے  ‘وہی وہی’  کی آواز نکالی۔ حسنِ بے پروا نے فوراً اپنے کاغذ پر کچھ لکھا اور اسے لپیٹتی ہوئی آگے چلدی۔ ہم  یوں چونکے گویا ابھی ابھی ہماری آنکھ کھلی ہو۔ ہم نے چونک کر چاروں جانب دیکھا۔ ہمارے اطراف  رنگ و نور کی اک عجیب دنیا پھیلی ہوئی تھی۔ تو یہ سنگاپور ہے، ہم نے ترنگ میں آکر سوچا۔
ہم نے آرینج جوس کے ہلکے ہلکے گھونٹ لیتے ہوئے چیک اِن کیا اور اپنےاپنے کمرے میں جاکر ڈھیر ہوگئے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ بعد جب ہوش ٹھکانے لگے اور رات کی بے آرامی کا کچھ مداوا ہوا تو دوپہر کے کھانے کا خیال دل کو ستانے لگا۔ ہوٹل کا کھانا بہت مہنگا پڑتا لہٰذا دونوں دوست ہوٹل سے نکلے اور کسی سستے ریسٹورینٹ کی تلاش شروع کی۔ دور دور تک ایسے کسی ریسٹورینٹ کا پتہ نہ چلا تو تھک ہار کر واپس ہوئے ہی تھے کہ ایک اسٹور پر نظر پڑی۔ چودھری صاحب نے مسکرا کر ہمیں معنی خیز نظروں سے  دیکھا گویا کہہ رہے ہوں، ‘‘ اب دیکھو ! میں کیا کرتا ہوں۔’’،  ایک عدد ڈبل روٹی خریدی اور ہمیں لیے ہوئے اپنے کمرے کی جانب آگئے۔ کمرے میں پہنچ کر دروازہ لاک کیا اور اپنے سوٹ کیس میں سے ایک عدد بجلی کی ہیٹنگ  راڈ  برآمد کی،  اسے  قریب ترین بجلی کے ساکٹ میں لگا کر اس کا سرا ایک پانی کے برتن میں ڈال دیا ۔ پانی گرم ہونا شروع ہوا،  اتنے میں انھوں نے اپنے سوٹ کیس سے‘ احمد’ کا کوفتوں کے سالن کا سربند کین نکالا،  اسے پانی میں رکھ کر خوب گرم کیا اور اسے کھول کر پلیٹ میں ڈال دیا۔ اس طرح ہم نے اس دوپہر اپنی بھوک مٹائی اور سیر کے لیے نکل پڑے۔  آج اتوار تھا اور ہم نے سن رکھا تھا کہ سنگاپور میں ایک جگہ ‘ لٹل انڈیا’  نامی بھی ہے جہاں ہندوستانی کھانوں کے سستے ریسٹورینٹ موجود ہیں نیز یہ کہ وہاں پر دکانیں اتوار کے دن بھی کھلی رہتی ہیں۔
بس کے ذریعے سرنگون روڈ کے اسٹاپ پر اترے تو کچھ اور ہی سماں تھا۔ ہر طرف سجی سجائی  ہندوستانی طرز کی دکانیں موجود تھیں جن میں قسم قسم کی ہندوستانی اشیائ فروخت کے لیے موجود تھیں ۔کہیں زرق برق بھڑکیلی ، بنارسی ہندوستانی ساڑھیاں اور دیگر ہندوستانی کپڑے ، کہیں سونے اور چاندی کے جڑائو زیور۔کہیں ہندوستانی موسیقی پر مبنی کیسٹ اور سی ڈیاں ۔ اور ان دکانوں کے درمیان خالص ہندوستانی کھانے سرو کرتے ریسٹورینٹ۔کہیں  روا  ڈوسا اور مسالہ ڈوسا، کہیں اڈلی  وڑہ،  کہیں تھالی ریسٹورینٹ ، جہاں پر آپکی پسند کے مطابق اسٹیل کی تھالی میں  یا کیلے کے پتے پر کھانا دیا جاتا ہے۔کہیں صرف ویجیٹیرین یعنی سبزیوں والے کھانے ، کہیں بسم اللہ بریانی ۔کہیں ہندوستانی مٹھائیاں۔چوک سے چلنا شروع کیا تو ایک جگہ ‘مصطفےٰ اینڈ شمس الدین کی دکان نظر آئی۔ یہ ان کی سب سے پرانی دکان ہے۔  نظارہ کرتے چلے تو لطف آگیا۔ یوں تو اس سڑک کا نام سرنگون روڈہے لیکن اطراف میں چونکہ ہر طرف ہندوستانی آباد ہیں اور ان ہی کی دکانیں نظر آتی ہیں ، لہٰذا   اسے  لٹل انڈیا یعنی‘ چھوٹا ہندوستان’ کہا جاتا ہے۔  یہ بازار یونہی پھیلتا ہوا اگلے چوک تک پہنچتا ہے جہاں پر اُس زمانے میں سرنگون پلازہ میں مصطفےٰ اینڈ شمس الدین کا بڑا اسٹور ہوتا تھا،  اب اس جگہ،   اس سے بھی بڑا مصطفےٰ سنٹر ہے۔مصطفےٰ سنٹر اب ایک بہت بڑا ملٹی اسٹوری ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہے جہاں ضروریاتِ زندگی کی تقریباً ہر چیز ملتی ہے۔آجکل،  جب سے زمین دوز ٹرین ( جسے مقامی لوگ  ایم آر ٹی یعنی    ماس ریپڈ ٹرانزٹ کہتے ہیں) چلی ہے اس کے دو اسٹیشن سرنگون روڈ پر ہیں۔ ایک  بکے تیما  روڈ اور سرنگون روڈ کے  سنگم پر اور دوسرا مصطفےٰ سنٹر سے صرف چند قدم کے فاصلے پر۔سرنگون روڈ پر چلتے ہوئے    راستے میں ایک ہندو مندر اور مصطفےٰ سنٹر کے عین سامنے انگولیا مسجد واقع ہے ،بھی نظر آتے ہیں۔  اتوار کو تو یوں لگتا ہے گویا سڑک پر ایک جلوس چل رہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان سے آنے والے زیادہ تر اسی علاقے میں پہنچ کر کھانا کھاتے ہیں اور اپنی زیادہ تر خریداری یہیں سے کرتے ہیں۔ بسم اللہ ریسٹورینٹ میں ایک بزرگ ویٹر کے طور پر کام کرتے ہیں ،  ان سے گفتگو کی تو پتہ چلا کہ ‘مصطفےٰ بھائی’ ہندوستان سے آئے تو  شروع میں ایک ٹھیلا لگاتے تھے، ایک صاحب اپنی دکان بیچ کر ہندوستان جارہے تھے۔  مصطفےٰ بھائی نے ان سے دکان خرید لی۔ اللہ نے برکت دی اور کاروبار اتنا بڑھا کہ اب ماشائ اللہ مصطفےٰ سنٹر چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے اور روزآنہ ہزاروں خریدار خریداری کے لیے آتے ہیں اور لاکھوں کی خریداری کرتے ہیں۔
وہیں سے کٹ مارا اور سیدھے ہاتھ کی طرف ہولیے۔ چلتے چلتے راستے میں عرب اسٹریٹ نظر آئی، دیکھ کر دل خوش ہوا ، وہیں سے نظر گھمائی تو دل پہلو میں رکتا ہوا سا محسوس ہوا۔ نظروں کے سامنے ایک انتہائی خوبصورت مسجد موجود تھی۔ تیز تیز چلتے ہوئے اس مسجد تک پہنچے۔ اس خوبصوت اورعالی شان  مسجد کا نام ‘‘ مسجد سلطان’’  ہے۔مسجد باہر سے جتنی خوبصورت نظر آتی ہے، اندر سے بھی اتنی ہی خوبصورت ہے۔  اندر جاکر دو رکعت نمازِ عصر قصر پڑھی، کچھ تصویریں اندر باہر سے کھینچیں اور پھر عرب اسٹریٹ پر نظر کی تو یہاں کئی ملائین مسلم ریسٹورینٹ دکھائی دیئے جو انڈا پراٹھا قسم کی کوئی چیز بنا رہے تھے۔ اس ڈش کا نام مرطباق ہے۔ چائے کے ساتھ مرطباق کھایا۔ بہت لذیذ تھا۔ واپس اسی راستے سے لوٹے اور سرنگون روڈ پہنچے اور دیر تک وہاں ٹہل لگاتے رہے۔ 
راستے میں ایک جگہ ایک ریسٹورینٹ پر‘‘ عظمی ہوٹل’’  لکھا ہوا دیکھا تو قسمت آزمانے کا خیال آیا۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں پر کسی بھی ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے سے پہلے حلال وغیرہ سے متعلق پوچھ لیا کرتے تھے۔ یہاں بھی خیال آیا کہ پہلے دل کی تسلی کرلی جائے اس لیے اسی عظمی ہوٹل کے کاونٹر پر جاکر ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا یہاں حلال کھانا ملتا ہے۔ کرتا پائجامہ میں ملبوس ایک مولانا کاونٹر پر کھڑے تھے، برا مان کر بولے۔
‘‘عظمی ہوٹل نام ہے، سب کام کرنے والے یہاں مسلمان ہیں اور یہاں پر ہر کھانا حلال ہے۔’’
 دل کو تسلی ہوئی تو ہم نے رات کا کھانا وہیں سے کھایا اور بس میں بیٹھ کر ہوٹل واپس لوٹ گئے۔ دروازے سے اندر آتے ہی کئی کارڈوں پر نظر پڑی جو دروازے کے نیچے سے کمرے میں ڈالے گئے تھے۔ یہ کارڈ مختلف مساج سنٹرز سے متعلق تھے۔ انھیں ردی کی ٹوکری میں ڈالا اور کمرے میں ادھر ادھر نظر ڈالی۔ کمرے  میں موجود  ریفریجریٹر کے قریب بجلی کی کیتلی اور ساتھ ہی ایک طشت میں  دو عدد چائے اور دو عدد کافی کا انتظام تھا جو ہوٹل کی جانب سے مفت تھا۔ مزے سے چائے بنا کر پی ،    آنے والے کل کی تیاری کرکے بستر پر لیٹ گئے اور ٹیلیویژن سے دل بہلانے لگے۔ چیک اِن کے ساتھ ہی کمپنی کی جانب سے ایک خط ہمیں مل چکا تھا کہ اگلے روز ایک بس ہمیں ہوٹل کی لابی سے لیکر ٹریننگ سنٹر تک لیجائے گی، لہٰذا اس طرف سے اطمینان تھا۔ سفر کی تھکن اب تک محسوس ہورہی تھی  اس لیے لیٹے تو اگلے ہی لمحے گہری نیند نے ہمیں آدبوچا۔جانے کب تک سوتے رہے۔ اچانک ٹیلیفون کی مسلسل  گھنٹی کی آواز سے بیدار ہوئے۔ کچھ دیر تک تو سمجھ ہی میں نہ آیا کہ ہم کہاں  ہیں اور اس وقت کے بجے ہیں۔ حواس باختہ سے لیٹے رہے۔ بارے کچھ سکون ملا تو رسیور اٹھا کر ‘‘ ہیلو!’’ کہا۔
کسی خاتون کی میٹھی سی آواز سنائی دی۔وہ انگریزی میں کچھ کہہ رہی تھیں۔ آپ نے ہمیں بلایا؟
ہمارے حواس دوبارہ گم ہوگئے۔ بڑی مشکل سے انھیں پھر سے مجتمع کیا اور نہایت تلخ لہجے میں جواب دیا۔ جی نہیں۔ ہم نے آپ کو کال کیا نہ بلایا۔ اور رسیور کریڈل پر پٹخ کر دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگے۔ پھر اٹھے، حوائج ضروریہ سے فارغ ہوکر ٹیلیویژن کو بند کیا۔ لائٹ بند کی اور کافی دیر تک دھڑکتے دل کو سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے۔


Monday, February 28, 2011

علم الصرف ایک مبتدی کی نظر سے


علم الصرف
محمد خلیل الر حمٰن

﴿بسم اللہ الر حمٰن الر حیم
الحمد للہ الذی ﴿خلق الانسان و علمہ البیان و اختیار لوحیہ لساناً عربیاً و انزل فیہ القرآن وافضل الصلاۃ وا تم السلام علی سیدنا محمد سید الانام و صاحب الجوامع الکلم و حسن البیان ، ا ما بعد
ابتدائے آفرینش سے لے کر آج عہد جدید تک  ہم ذہن ِ انسانی کے ارتقائ اور اس کی نشو و نمائ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلا اور بنیادی عنصر جسکی ذہن انسانی کوضرورت تھی وہ ہے رابطہ اور رابطے کی زبان۔ جسکے بغیر شاید یہ عمل ممکن نہ ہوتا۔ جانوروں کے برعکس جنھیں اپنی ذہنی استعداد کے مطابق رابطے کے لئے صرف چند اشاروں اور کچھ آوازوں کی ضرورت ہوتی ہے، انسانی ذہن کو اپنا مافی الضمیر مکمل طور پر بیان کرنے کے لئے یقیناً ایک مکمل زبان کی ضرورت ہوئی۔ اسطرح گویاانسانی رابطے کے اہم تر ین طریقے یعنی زبان کا فطری ارتقائ عمل پذیر ہوا۔ جب ہم فطری اندازکی بات کرتے ہیں تو یقیناً ہمارا  واضح اشارہ امر ربی کی جانب ہے۔ اللہ رب العزت نے تخلیق انسانی کے بعد اسے بیان کی قدرت عطائ فرمائی
﴿خلق الانسان۔ علمہ البیان
جسکی تفسیر علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب کچھ یوں کرتے ہیں۔
          ایجاد ﴿ وجود عطائ فرمانا اللہ کی بڑی نعمت بلکہ نعمتوں کی جڑ ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں ۔ایجادِ ذات اور ایجادِ صفت۔ تو اللہ تعالیٰ نے آدمی کی ذات کو پیدا کیا اور اس میں علمِ بیان کی صفت بھی رکھی۔ یعنی قدرت دی کہ اپنے مافی الضمیر کو نہایت صفائی و حسن و خوبی سے ادا کر سکے۔ اور دوسروں کی بات سمجھ سکے۔اس صفت کے ذریعے سے وہ ْقرآن سیکھتا اور اور سکھاتا ہے۔ اور خیر و شر، ہدایت و ضلالت، ایمان و کفر اور دنیا و آخرت کی باتوں کو واضح طور پر سمجھتا اور سمجھاتا ہے۔
                                                                   ﴿ از تفسیرِ عثمانی

تخلیقِ آدم ہوئی پھر بی بی حوا تخلیق کی گئیں پھر ان دونوں کے ملاپ سے کنبہ اور خاندان بنے  اور اس سے قبیلے اور ذاتیں وجود  میں آئیںِ۔ ْقرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
﴿یٰا یھا الناس انا خلقنٰکم من ذکرو انثیٰ و جعلنٰکم شعوباً وَّ قبائلَ لِتعارفو۔
 ترجمہ ۔اے  آدمیو! ہم نے تم کو بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے  اور رکھیں تمہاری ذاتیں اورقبیلے  تاکہ آپس کی پہچان ہو۔
آپس کی پہچان اور اپنا مافی الضمیر ادا کرنے اور دوسرے کی بات سمجھنے کے لئے انھیں زبان عطا ہوئی اور پھر جب ان کی تعداد بڑھی تو اسرائیلی روایات  اور عہد نامہ عتیق کے مطابق  وہ زمین میں پراگندہ ہو گئے اور ان کی زبان میں اختلاف ہوا۔

٭۔اور تمام زمین پر ایک ہی زبان اور ایک ہی بولی تھی۔
                   عہد نامہ، عتیق۔ تکوین۔۱:۱۱
٭۔آو، ہم اتریں اور وہاں ان کی زبان میں اختلاف ڈالیں تاکہ وہ ایک دوسرے کی بات نہ سمجھ سکیں ۔
٭۔اور خداوند نے انھیں اس جگہ سے تمام زمین پر پراگندہ کیا اور وہ شہر کے بنانے سے رک گئے۔
٭۔ اس لئے اس کا نام بابل ہوا کیونکہ وہاں خداوند نے ساری زمین کی زبان میں اختلاف ڈالا اور وہاں سے خدا نے انھیں تمام روئے زمین پر پراگندہ کیا۔
عہد نامہ عتیق۔ تکوین۔۹۔۷:۱۱
جب بنی نوع آدم اس زمین پر ذاتوں اور قبیلوں میں بٹے اور پھیلے اور ایک دوسرے سے جغرافیائی طور پر دور ہوئے تو انھیں اپنے اپنے ماحول کے مطابق مختلف زبانیں بارگاہِ خداوندی سے عطائ ہوئیں ۔

اس طرح گویا دنیا کی مختلف زبانوںزبانوں کی تخلیق کا عمل شروع ہوا ۔ ہمیں دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی یہ نہیں ملتا کہ کہیں کچھ لوگ جمع ہوے ہوں اور انھوں نے کسی زبان کی ایجاد کی کوشش بھی کی ہو  ۔﴿ ۷۸۸۱

÷ئ میں ایک پولش ڈاکٹر  ذامن ہاف نے ، اسپیرانٹو کے نام سے ایک زبان ایجاد تو ضرور کی ، لیکن  وہ زبان اپنی موت آپ مر گئی اور آج سو، سوا سو سال بعد کوئی اس کا نام تک نہیں جانتا۔۔ ہاں البتہ انسان نے شعوری طور پر ان رائج زبانوں کو سمجھنے کی کوشش ضرور کی جس کے نتیجے میں لسانی قواعد و ضوابط ضابطہ، تحریر میں آئے۔ اس طرح گویا گرامر ایجاد ہوئی ، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس طرح گرامر دریافت ہوئی۔ بالکل اسی طرح جس  طرح سائنسی قوانین ﴿ قوانینِ فطرت انسان نے ایجاد نہیں کئے بلکہ دریافت کیے۔ کشش ثقل اور اس کے قوانین انسانی ایجاد نہیں بلکہ انسانی دریافت ہیں ۔بعینہِ لسانیات کے ماہرین نے سر جوڑ کر مروجہ زبان کے طور طریقوں کو سمجھنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں گرامر اور لسانیات کے قواعد دریافت کیے۔
قرآن کریم میں اللہ باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
﴿فِطرتَ اللہِ التی فَطَر َالناس عَلَیھَا ۔ لا تبدیل لِخلقِِِ اللہ
﴿سورہ روم 
ترجمہ:۔ وہی تراش اللہ کی جس پر تراشا لوگوں کو ۔ بدلنا نہیں اللہ کے بنائے ہوئے کو۔
کیا  و جہ ہے کہ ایک دوسری سے ہزاروں کلو میٹر دور پیدا ہونے والی اور پھلنے پھولنے والی تہذیبوں میں ایک دوسری تہذیب سے کوئی تعلق نہ ہونے  اور دوسری تہذیب کے کسی طرح کے اثرات قبول نہ کر سکنے کے باوجود ہر تہذیب و تمدن میں اچھائی و برائی کے تصورات ایک جیسے ہیں ۔ اچھائی و اچھی قدریں ہر تہذیب و ہر زمانے میں اچھے تصورات و اقدار ہی ہیں۔اور برائی اور ا س سے جنم لینے والی بری اقدار و برے تصورات ہر تہذیب و ہر دور میں برے ہیں ۔ بدی ہر دور اور ہر تہذیب میں بدی ہے ، اور نیکی ہر دور اور ہر تہذیب میں نیکی ہے۔ اچھے خیالات ، نیکی، سچائی ، احسان ، ہمدردی، بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے محبت و شفقت، کمزور کی طرف داری، غلط قدروں اور غلط تصورات کے خلاف آواز اٹھانا، اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی اور برے کاموں ، قتل و غارت گری ، چوری ، ڈاکہ زنی وغیرہ پر سزا ہر دور اور ہر معاشرے میں اچھی اقدار کے طور پر موجود رہے ہیں جن پر بجا طور پر فخر کیا جاتا ہے۔

اسی طرح دوسری طرف برے خیالات ، بدی، جھوٹ، مکر و فریب، دغابازی، شقاوت ، سنگدلی، ظلم و جور، بد تمیزی، فحاشی و عریانی، چوری چکاری، ڈاکہ زنی، قتل و خون وغیرہ سب معاشرے کی برائیاں اور ناسور  خیال کیے جاتے ہیں۔

تاریخ ہمیں کہیں بھی یہ اشا رہ  نہیں کرتی  کہ مندرجہ بالا خیالات تصورات و اقدار کسی ایک تہذیب و تمدن سے دوسری تہذیب و تمدن میں کسی طور بھی منتقل ہوئے ہوں۔ یہ اقدار ہر تہذیب کی اپنی پیداوار سمجھی جا سکتی ہیں۔ خواہ وہ قدیم یونانی و مصری تہذیبیں ہوں، انکا و سمیری و حطیطی تہذیبیں ہوں ، چین و جاپان و ہندوستان کی تہذیبیں ہوں یا زمانہ جدید کی مشرقی و مغربی تہذیبیں ہوں۔ اچھی اقدار اچھی ہیں اور بری  اقدار بری ہی سمجھی جاتی ہیں۔ گویا
ع  کوئی معشوق ہے اس پردہ، زنگاری میں

اور یہ کوئی معشوق، بجا طور پرخدائے لم یزل اللہ باری، تعالیٰ کی ذات کے علاوہ اور کون سی ہستی ہوسکتی ہے۔

حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی  تفسیرِ عثمانی میں مندرجہ بالا آیت کے بارے میں رقمطراز ہیں۔
          ’’اللہ تعالیٰ نے آدمی کی ساخت اور تراش شروع سے ایسی رکھی ہے کہ اگر وہ حق کو سمجھنا اور قبول کرنا چاہے تو کر  سکے ا ور بدائ فطرت سے اپنی اجمالی معرفت کی ایک چمک اس کے دل میں بطور تخمِ ھدایت کے ڈال دی ہے۔ اور اگر گرد و پیش کے احوال و ماحول کے خراب اثرات سے متاثر نہ ہو اور اصلی طبیعت پر چھوڑ دیا جائے تو یقیناً دینِ حق کو اختیار کرے اور کسی دوسری طرف متوجہ نہ ہو۔  ’’ عہدِ الست‘‘  کے قصے میں اسی کی طرف اشارہ ہے‘‘۔
یعنی  عہدِ الست ہی وہ واحد موقع ہے جب ان تمام تہذیبوں کے اجزائے ترکیبی یعنی حضرتِ انسان کی تمام نوع ، تمام ارواح نے ایک مقام پر یکجا ہوکر ایک زبان اور ایک آواز کے ساتھ اللہ رب العزت کے سوال  ﴿الست بربکم کے جواب میں  ﴿ بلیٰ کہا تھا۔ اسی اللہ رب العزت نے قوموں کو تہذیب تمدن، اقدار و تصورات عطائ فرمائے، اور تہذیبوں کی نشوئ نمائ اور پروان و پرداخت کا مالک بنا۔
اسی طرح  اللہ رب العزت نے  انسانی تہذیبوں کو مختلف زبانیں عطا ئ کیں اور ان زبانوں کی پروان و پرداخت کا مالک بنا۔ زبانوں کے ایک دوسری سے مکمل طور پر الگ ہونے کے باوجود ہمیں ان گنت الفاظ و ترکیبات و خیالات کی یکسانی پر حیرت ہوتی ہے۔
۱۔ ماں، ماتا، مام، ا،م ، مادر، مدر، ممی، جیسے ملتے جلتے الفاظ ماں کیلئے، دنیائ کی مختلف زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔
۲۔ عزت و تکریم کے لئے جمع کا صیغہ دنیائ کی کئی زبانوں میں مستعمل ہے، یعنی انگریزی میں وی ﴿  we  اردو میں ہم ، عربی میں نحن وغیرہ  کا استعمال نہ صرف اللہ رب العزت کی زبانی ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے،  بلکہ دنیوی دیگر بادشاہوں اور متبرک ہستیوں کی زبانی بھی ادا ہوتا ہے۔
۳۔ ذیل میں ایک جدول کے ذریعے اردو، انگریزی، عربی وعبرانی کے چند الفاظ درج ہیں جو ایک جیسے ہی ہیں۔
اردو
انگریزی
عربی

﴿ مندرجہ بالا جدول شیخ احمد دیدات کے خطبات سے لیا گیا ہے۔

اب اگر مذکورہ بالا مبحث اور دلائل کی روشنی میں منصوبہ، خداوندی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

معاہدہ، ازلی سے بہت پہلے جب اللہ رب العزت نے قرآن کریم کو لوحِ محفوظ میں ودیعت  فرمایا، اسی دن گویا بارگاہِ ایزدی میں یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ اس قرآن کو اپنے محبوب بندے حضرتِ محمد مصطفےٰ  پر نازل فرمانے کے لئے زبانِ عربی ہی مناسب ترین زبان ہے۔ لہٰذہ بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی، عربی زبان رسول اللہ  کی ولادتِ مبارکہ سے کم و بیش ساڑھے تین سو سال پہلے سے بولی جارہی تھی۔
درآنحالیکہ جب نبی امی  کو اہلِ عرب میں مبعوث فرمانے اور قرآنِ کریم کو ان پر عربی زبان میں  نازل فرمانے کا وقت آیا تو اس وقت عربی زبان نہ صرف دنیائ کی سب سے بہترین زبان کی شکل میں موجود تھی ، بلکہ اس وقت وہ اپنے عروجِ کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ چنانچہ اہلِ عرب اپنی زبان پر بجا طور پر فخر کرتے تھے اور اپنے آپ کو فصیح اور دیگر عالم کو عجم یعنی گونگا  سمجھتے تھے۔

مندرجہ بالا صورتحال کا ادراک و اظہار نہ صرف عربوں نے بلکہ زمانہ، قدیم و جدید کے غیر عربوں اور غیر مسلموں نے بھی برملا کیا، چنانچہ مشہور مستشرق دوبوئر اپنی کتاب تاریخِ فلسفہ، اسلام میں رقمطرا زہے۔

          ’’عربی زبان جس کے لفظوں اور ترکیبوں کی کثرت اور انصراف کی صلاحیت پر عربوں کو خاص طور پر ناز تھا، دنیا میں ایک اہم حیثیت حاصل کرنے کے لئے بہت موزوں تھی۔ اسے دوسری زبانون  خصوصاً ثقیل لاطینی اور پر مبالغہ فارسی کے مقابلے میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں مختصر اور مجرد اوزان موجود ہیں۔ یہ بات علمی اصطلاحوں کیلئے بہت مفید ثابت ہوئی۔ عربی زبان میں باریک سے باریک فرق ظاہر کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ‘‘
آگے چل کر  فاضل مصنف لکھتا ہے۔
          ’’  عربی جیسی فصیح ، پر معنی اور مشکل زبان نے شامیوں اور ایرانیوں کی تعلیمی زبان بن کر بہت سے نئے مسائل پیدہ کر دئیے۔ اول تو قرآن کے مطالعے، تجوید اور تفسیر کے لیے زبان پر عبور ضروری تھا، کفار کو یقین تھا کہ  وہ  کلام اللہ  میں  ز بان کی غلطیاں دکھا  سکتے ہیں ، اسلئے جاہلیت کے اشعار اور بدویوں کے روز مرہ سے مثالیں جمع کی گئیں تاکہ قرآنی عبارت کی صحت ثابت کی جائے اور اسی سلسلے میں زبان دانی کے عام اصولوں سے بھی بحث کی گئی۔‘‘
﴿از تاریخِ فلسفہ ئ اسلام از  ٹ۔ ج۔ دوبو ئر۔
مترجم ڈاکٹر عابد حسین          

عربی زبان کی وہ انصراف کی صلاحیت اور مجرد اور مختصر اوزان کی خصوصیت کیا ہے۔ اس صلاحیت و خصوصیت کو ہم ایک جادوئی لفظ ’’ ثلاثی مجرد‘‘ سے ظاہر کریں تو بے جا نہ ہوگا۔
ثلاثی مجرد سے مراد  وہ  سہ حرفی مادہ ہے جو عربی زبان کے نوے فیصد افعال ِ منصرفہ اور اسمائے مشتقہ کی بنیاد ہے۔

اب پیرایہ، خیال اور نفس ِ مضمون  کے اندر رہتے ہوے مندرجہ بالا مبحث  کا مزید جائزہ  لینے کے لیے علم الصرف کی اہم اصطلاحات کی آسان تعریف کر دی جائے  تو  بے جا نہ ہوگا۔

عربی کا مشہور مقولہ ہے  ’’  الصرف ام العلوم‘‘  یعنی علم الصرف تمام علوم کی ماں ہے۔ در اصل صیغوں کی پہچان کے علم کو علم الصرف کہتے ہیں جس سے لفظوں کو گرداننے  کا طریقہ اور ایک صیغہ سے دوسرا صیغہ بنانے کا قاعدہ معلوم ہوتا ہے۔


فعل دو قسم کا ہوتا ہے، ماضی اور مضارع۔ ماضی جس میں کام کا ہوچکنا معلوم ہوتا ہے  اور کام اگر اب تک ہوا نہیں ، بلکہ ہورہا ہے یا ہوگا تو اس صورت میں مضارع کا فعل استعمال ہوتا ہے۔

فعل میں عموماً تین حروفِ اصلیہ ہوتے ہیں، مگر بعض فعلوں میں چار بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح اسم میں اصلی حروف عام طور پر تین، چار یا پانچ ہوتے ہیں۔

ثلاثی: ۔ اس فعل یا اسم کو کہتے ہیں تین اصلی حروف ہوتے ہیں۔ جیسے  ضرب، نصر  وغیرہ۔

رباعی:۔ اس فعل یا اسم کو کہتے ہیں جس میں چار اصلی حروف ہوتے ہیں جیسے  بعثر، دحرج  وغیرہ۔

خماسی:۔ اس اسم کو کہتے ہیں جس میں پانچ اصلی حروف ہوتے ہیں۔

اب ان ثلاثی، رباعی اور  خماسی الفاظ میں سے ہر ایک کی دو ،  د و قسمیں ہیں،  ثلاثی مجرد  اور ثلاثی مزید فیہ،  رباعی مجرداور رباعی مزید فیہ، خماسی مجرد اور خماسی مزید فیہ۔
اگر فعل کے  صیغہ  ماضی واحد مذکر غائب میں صرف تین یا چار حروفِ اصلی موجود ہوں  اور کوئی حروفِ زائدہ نہ ہو تو اسے مجرد کہتے ہیں۔ جیسے  ضرب، نصر      ثلاثی مجرد ہیں   بعثر، دحرج   وغیرہ رباعی مجرد ہیں۔لیکن اگر فعل کے صیغہ ماضی واحد مذکر غائب میں حروف اصلیہ کے ساتھ کوئی حرفِ زائد بھی ہو، تو اسے مزید فیہ کہا جاتا ہے۔جیسے  اِجتنب ، اِستنصر، ثلاثی مزید فیہ  اور تسربل ، تذندق  رباعی مزید فیہ کی مثالیں ہیں۔

لفظ کے حروفِ اصلیہ کو مادّہ  کہتے ہیں۔ گویا کم از کم صرف تین حروف پر مشتمل  ایک مختصر ترین لفظ جو حروفِ اصلیہ پر مشتمل ہوتا ہے، لفظ کا مادّہ کہلاتا ہے۔ اور پھر اسی مادے سے مصدر اور اس کے تمام مشتقات کے علاوہ افعال کی تمام حالتیں وجود میں آ جاتی ہیں۔ پھر ایک بڑا کمال یہ ہے کہ فعل کے ہر صیغے میں فاعل کی ضمیر موجود ہوتی ہے، جو ضمائر مرفوعہ متصلہ کہلاتی ہیں ۔

اب ان مختصر ترین حروفِ اصلیہ اور ان کے ساتھ متصل چند حروفِ زائدہ اور ضمائرِ مرفوعہ متصلہ کے ادغام سے عربی زبان کے وہ تمام جامع ترین الفاظ وجود میں آتے ہیں  جو کسی اسم و فعل کی تمام ضروریات کو بدرجہ اتم پورا کررہے ہوتے ہیں ۔ اور اردو زبان کی طرح فعل کے ساتھ ’ کرنا‘ کا لاحقہ لگانے کی حاجت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ صرف ایک مختصر ترین لفظ  ضرب  کا مکمل ترجمہ اس ایک مرد نے مارا   یا   اس ایک مرد نے بیان کیا، ہوتا ہے۔ اب جب اسی ایک مختصر ترین لفظ سے حاضر، غائب اور متکلم  کے چودہ صیغے ﴿   واحد مذکر غائب، تثنیہ  مذکر غائب، جمع مذکر غائب،  واحد مونث غائب، تثنیہ مونث غائب، جمع مونث غائب،  واحد مذکر حاضر، تثنیہ مذکر حاضر، جمع مذکر حاضر، واحد مونث حاضر، تثنیہ مونث حاضر، جمع مونث حاضر، واحد مذکر و مونث متکلم ، تثنیہ و جمع مذکر و مونث متکلم وجود میں آ تے ہیں، اور وہ بھی اس طرح سے کہ اس مختصر ترین لفظ کے لئے ہر صیغے سے اثبات ماضی معروف، اثبات ماضی مجہول،  نفی ماضی معروف،  نفی ماضی مجہول،  اثبات مضارع معروف،  اثبات مضارع مجہول،  نفی مضارع معروف،  نفی مضارع مجہول،  نفی تاکید بہ لن فعل مستقبل معروف،  نفی تاکید بہ لن فعل مستقبل مجہول،  نفی جحد بہ لم  فعل مستقبل معروف،  نفی جحد بہ لم فعل مستقبل مجہول،  لام تاکید بہ نونِ ثقیلہ مستقبل معروف،  لام تاکید بہ نونِ ثقیلہ مستقبل مجہول،  لام تاکید بہ نونِ خفیفہ مستقبل معروف،  لام تاکید بہ نونِ خفیفہ مستقبل مجہول،  امر معروف، امر مجہول،  امر معروف بہ نونِ ثقیلہ،  امر مجہول بہ نونِ ثقیلہ،  امر معروف بہ نونِ خفیفہ،  امر مجہول بہ نونِ خفیفہ،  نہی معروف،  نہی مجہول،  نہی معروف بہ نونِ ثقیلہ،  نہی مجہول بہ نونِ ثقیلہ، نہی معروف بہ نونِ خفیفہ،  نہی مجہول بہ نونِ خفیفہ کے علاوہ مختلف اقسام کے اسم جن میں اسم فاعل اسم مفعول، اسم تفضیل،  اسمِ ظرف،  اسمِ آلہ،   اسم مبالغہ   اور صفتِ مشبہ جیسے تمام الفاظ وجود میں آتے ہیں۔ یہ تمام الفاظ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً  پانچ سو الفاظ بنتے ہیں۔  گویا ایک مادے سے کم و بیش پانچ سو الفاظ وجود میں آ سکتے ہیں۔

مولٰنا مشتاق چرتھاولی نے اپنی کتاب صفوۃ المصادر میں تقریباً ایک ہزر کے لگ بھگ مصادر تحریر کیے ہیں۔ عربی میں الفاظ  خاص طور پر مختصر الفاظ کے اتنے بڑے ذخیرے کی موجودگی  میں  یہ بات خاص طور پر نوٹ کی جانی چاہیے کہ اس وسیع زبان میں ایک ایک لفظ کے کئی معانی اور ایک معنی کے کئی الفاظ کثرت سے موجود ہیں،  یعنی اس زبان میں  باریک سے باریک فرق کو ظاہر کرنے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔

جناب طالب ہاشمی نے اپنی کتاب  ’’  اصلاحِ تلفظ اور املا  ‘‘  میں اردو کے ان الفاظ کا ذکر کیا ہے جو عربی سے اردو میں آئے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے عربی کے سہ ہرفی، چار حرفی، پانچ ہرفی، چھ حرفی اور سات حرفی مصادر کے۶۵  اوزان سے تقریباً ساڑھے چھ سو الفاظ  رقم کئے ہیں،  لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ سب الفاظ اپنی  موجودہ  حالت ہی میں اردو میں وارد ہوے ہیں اور اس خاص مصدر کے باقی عربی  الفاظ  اردو کے ا لئے جنبی ہی ہیں۔  یہ بات  اردو کی کوتاہ  دامنی کی طرف اشارہ کے یا نہ کرے عربی کی وسیع دامنی کی طرف ضرور اشارہ کرتی ہے۔

امید ہے کہ میں قاری کے دل میں وہ آتشِ شوق بھڑکانے میں کامیاب ہوپایا ہوں، جو میرے اس مضمون کا مقصد و مدعا تھا۔ عربی زبان اس لیے تو محترم ہے ہی کہ یہ قرآن و سنت کی زبان ہے، بلکہ یہ اس لیے بھی قابلِ ستائش اور سیکھنے کے لائق ہے کہ یہ دنیا کی بہترین زبان ہے۔ حدیث نبوی ﷺ
 ہے  ’ خیرکم من تعلم القرآن و علمہ‘ تم میں سے بہتر وہ ہیں جنھوں نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ قرآن کے سیکھنے اور سکھانے کے لیے عربی ضروری تو ہے ہی،  پھر اگراسے اسکے محاسن و خوبیوں کو پرکھتے ہوئے ، شوق سے سیکھا جائے تو سونے پر سہاگہ ہے۔
تمت بالخیر

Sunday, February 27, 2011

ہیری پوٹر اِن ٹربل: ایک کھیل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ہیری پوٹر ان ٹربل




تحریر؛ محمد خلیل الرحمٰن






نوٹ برائے ناظرین:۔ پی، سی او اور ایمرجینسی گئے تو،لیکن اپنے پیچھے بہت سی ناخوشگوار یادیں چھوڑ گئے جو اس ڈرامے کا پس منظر بنیں ، لیکن اس ڈرامے کی اصل کہانی کچھ یوں ہے۔






ہیری پوٹر اور لارڈ آف دی رنگ کی مقبولیت نے ساری دنیا کے نوجوانوں کی طرح ہمارے نوجوانوں کو بھی متاثر کیا ہے اور وہ سب کچھ بھول کر ان جادوئی کہانیوں کے رسیا اور دلدادہ بن گئے ہیں۔ اس قسم کی جادوئی کہا نیاں ہمارے اردو ادب میں اب سے کوئی دوسو سال پہلے تک لکھی جاتی رہی ہیں، جیسے، داستانِ امیر حمزہ، طلسمِ ہوشربا، فسانہ عجائب وغیرہ لیکن، فسانہ آزاد اور اس قسم کی اور دوسری کہانیوں نے جادو ٹونے کو اردو کہانیوں سے ہمیشہ کے لیے باہر نکال پھینکا۔رفتہ رفتہ اردو ادب اپنی جدید شکل میں ہم تک پہنچا جس میں اوروں کے علاوہ نوجوانوں کے لیے بھی متعدد شہرہ آفاق کہانیاں موجود ہیں جن میں جادو ٹونے کا دور دور تک کوئی وجود نہیں۔






ہیری پوٹر اور لارڈ آف دی رنگ کی کی مقبولیت کی داستان جب قاضی صاحب تک پہنچی تو انھوں نے حسبِ عادت سو مو ٹو ایکشن لے لیا۔ ان کی ملاقات طلسمِ ہوش ربا کے کرداروں شہزادہ نور الدھر اور مخمور جادوگرنی سے ہوئی تو انھیں اپنے ایکشن کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہ رہا۔






قاضی صاحب پی سی او کا شکار ہوکر کہانی سے جدا ہوئے تو فسانہ آزاد کے کردار میاں آزاد پاشا نے اس قصے کو عوام کی عدالت یعنی کھلی کچہری میں لے آنا چاہا۔ پھر کیا ہوا یہ ییش کیے جانے والے اس ڈرامے میں ملاحظہ فرمائیے ۔


۔






پہلا منظر۔


﴿ پردہ اٹھتا ہے۔اسٹیج پر کئی افراد مختلف قسم کے بہروپ دھارے ساکت و جامد کھڑے ہیں۔تقریباً درمیان میں، دایئں جانب منہ کیے ہوئے ایک لمبے کالے چغے میں ملبوس کالی پھندنے دار ٹوپی پہنے ہیری پوٹر کھڑا ہے۔اپنے دایئں ہاتھ میں اس نے اڑنے والی جھاڑو پکڑی ہوئی ہے۔ گویا ابھی اڑان شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔دایں ہاتھ میں جادو کی چھڑی ہے جسے وہ ڈارک لارڈ والڈیمورٹ کی طرف اٹھائے ہوئے ہے۔لارڈ والڈیمورٹ کالے لبادے میں ملبوس ہیری کی طرف دونوں ہاتھ اٹھائے ایک بھوت کی مانند کھڑا ہے۔ پچھلی جانب گینڈالف سفید پوش اپنے ہاتھ میں ایک عصا لئے کھڑا ہے۔ گیندالف سفید پوش کے سامنے حاضرین کی طرف منہ کیے ہوے فروڈوبیگنز کھڑا ہے۔ اسٹیج پر پچھلی جانب دو عدد بورڈ نمایاں ہیں دائیں بورڈ پر کوچہ ثقافت اور بائیں بورڈ پر قاضی القضاۃ تحریر ہے﴾۔






دایئں طرف سے کورس داخل ہوتا ہے اور اسٹیج پر سامنے آجاتا ہے۔ اسپاٹ لائٹ اس پر مرکوز ہوجاتی ہے﴾۔


کورس:۔ کوچہَ ثقافت میں ، جہاں ہم نے اپنا یہ منظر ترتیب دیا ہے، بہت دنوں سے دو اسکولوں یعنی ہوگورٹس اسکول آف وچ کرافٹ اینڈ و زرڈری اور گینڈالف سفید پوش کی تحریک انگوٹھی، نے اہالیانِ کوچہَ ثقافت پر اپنے ظلم کی وجہ سے ان پر جینا حرام کر رکھا ہے۔ جہاں عوام کا جیتا جاگتا سرخ خون انکے ہاتھوں کو گندہ کیے رکھتا ہے۔


با ادب با ملاحظہ . ہوشیار۔ نگاہ روبرو۔ جناب قاضی صاحب تشریف لاتے ہیں۔


نقیب:۔ ﴿ نعرہ مارتے ہوئے﴾ آیا آیا قاضی آیا۔دم دما دم قاضی آیا۔


قاضی صاحب :۔


میرا مطلب ہے، باغی رعایا، امن کے دشمنو! سنو۔


کیا تم اب بھی نہیں سدھرو گے؟ ایک دوسرے کی رگوں سے بہتا ہوا خون کیا تمہیں سکون بخشتا ہے۔ اپنی یہ جادو کی چھڑیاں اور یہ ڈنڈے زمین پر پھینک دو اور اپنی قاضی کی عدالت کا فیصلہ سن لو۔


یو کیپو لیٹ شیل گو الانگ ود می


اینڈ مانتیگیو! کم یو دس آفٹر نون


میرا مطلب ہے۔ ہیری پوٹر اور لارڈ والڈیمورٹ تم دونوں ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ چلوگے۔ اور گینڈالف سفید پوش، تم اور یہ فراڈ ۔۔۔، میرا مطلب ہے، فروڈو بیگنز آج شام کو عدالت میں حاضر ہوں۔


تمہارے درمیان تین خطرناک جنگوں نے، تین مرتبہ مڈل ارتھ میں اس کوچہ ادب و ثقافت کا سکون برباد کیا ہے۔ آج میں بحیثیتِ قاضی اس صورتِ حال کا سو موٹو نوٹس لیتے ہوئے۔۔۔۔۔


نقیب:۔ سر. پی سی او۔ سر پی سی او


قاضی صاحب:۔ اے بی بی جی۔ ٹی پی او جی۔ پی کے آئی جی ۔ یہ کیا بکواس لگا رکھی ہے۔ اے بی سی ڈی۔ پی سی او۔ سیدھی طرح اردو میں بکو کیا بکنا ہے۔


نقیب:۔ سر ایمرجینسی، سر ایمر جینسی۔


قاضی:۔ او ہو تو یوں کہو نا۔ ایمر جین۔۔۔۔ ارررھپ۔﴿ دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ بند کرلیتا ہے﴾۔


نقیب:۔﴿ لہرا کر گاتے ہوئے﴾


ہم نے پہلے ہی دن تھا کہا نا سجن۔۔۔


قاضی:۔ لیکن۔لیکن۔لیکن۔لیکن۔لیکن۔


نقیب:۔ لیکن کیا سر؟


قاضی:۔ لیکن یہ کہ ان کے خلاف ایکشن تو لینا ہی پڑے گا۔ ان ظالموں نے، شائر، گلوسسٹر شائر، اور گلن شائر کی طرز پر کوچہ ’ ثقافت کا نام بھی تبدیل کر دیا ہے۔


نقیب:۔ وہ کیسے سر؟


قاضی:۔ یہ کراچی شائر، لاہور شائر، پنڈی شائر، یہ سب کیا ہے؟


نقیب:۔ یہ شائر کراچی ہے۔ یہاں پر صبح کو نزلہ اور شام کو کھانسی ہے۔


قاضی:۔ اوچے برج لاہور شائر دے۔


نقیب:۔


تھے تو آبائ وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو۔


ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو؟


قاضی:۔ خاموش بے ادب گستاخ۔ اسی لیئے تو ہم سو موٹو نوٹس لے رہے ہیں۔


﴿ اچانک ڈرامائی انداز اختیار کر تے ہوئے، جادوگروں کو مخاطب کرتا ہے﴾۔


میرا مطلب ہے۔ ایک مرتبہ پھر میں تمہیں کہتا ہوں۔فوراً یہاں سے دال فے عین یعنی دفع ہو جائو۔ ورنہ موت تمہارہ مقدر ہے۔


﴿ ایک مرتبہ پھر بگل بجتا ہے﴾۔


نقیب:۔ با ادب با ملاحظہ ہوشیار۔


امیر حمزہ کے پوتے شہزادہ نور الدھر اورجادو نگری کی شہزادی مخمور تشریف لاتے ہیں۔


﴿ تمام جادوگر اسٹیج کی پچھلی جانب ایک قطار بنا کر با ادب کھڑے ہوجاتے ہیں۔مخمور اور اسکے پیچھے شہزادہ نور الدھر اسٹیج پر داخل ہوتے ہیں﴾۔


شہزادہ نور الدھر:۔ ﴿ لہراتی ہوئی مخمور کے پیچھے فلمی گیت گاتے ہوئے داخل ہوتا ہے﴾۔


آ لوٹ کے آجا میرے میت۔


تجھے میرے گیت بلاتے ہیں۔


میرا سونا پڑا رے سنگیت۔


میرا سونا پڑا رے سنگیت۔


تجھے میرے گیت بلاتے ہیں۔


مخمور:۔ ﴿ مڑ کر نور الدھر کی طرف دیکھتے ہوئے﴾ چلو اب منہ دیکھی محبت نہ جتائو۔میں ایسے بے وفا سے بات نہیں کرتی۔


شہزادہ نور الدھر:۔ اے مغرور لڑکی۔یہ مجھ غریب پر کیا ظلم ہے کہ خود ہی مجھے اپنا دیوانہ بنایا اور پھر خود ہی بھول گئیں۔


مخمور:۔ کہو صاحب کیا ہے۔ کیوں میرا پیچھا کر رہے ہو۔ لو اچھا! میں ٹھہر جاتی ہوں، اب بولو کیا کہتے ہو؟


نور الدھر:۔ میں تو تمہاری جدائی میں دیوانہ ہورہا ہوں۔


مخمور:۔ مجھ جیسی بد قسمت سے دل لگا نا ، محبت کرنا اچھا نہیں ۔ جادوگر بادشاہ کے جادوئی پھندے سے میرا نکلنا مشکل ہے۔ اس وقت تو دوسرے جادوگروں کے ساتھ بہانہ کرکے ، تمہیں دیکھنے کے لیے یہاں چلی آئی تھی۔


نور الدھر:۔ کیا تم بھی جادوگرنی ہو؟


مخمور:۔ ہاں صاحب ہاں۔


نور الدھر:۔ ﴿ فلمی انداز میں﴾ نہیں۔ نہیں نہیں۔


مخمور:۔ ارے بدھو! میں ان جادوگرنیوں کی طرح نہیں ہوں جن کی عمریں دو دو سو سال کی ہوتی ہیں۔ اور ان کا حسن ان کے جادو کا کمال ہوتا ہے۔ میں تو ابھی چودہ سال کی ہوں۔ ﴿ گاتی ہے﴾


آئی ایم فورٹین گویئنگ آن فیفٹین


یو آر سکسٹین گویئنگ آن سیون ٹین


نور الدھر:۔﴿ خوش ہوکر﴾ اچھا؟ ﴿ لیکن پھر اداس ہوتے ہوئے﴾ لیکن۔۔۔۔۔


مخمور:۔ کیوں صاحب اب کیوں ہم سے ناراض ہو؟


نور الدھر:۔اے خوب صورت لڑکی ۔ میں تجھ سے ناراض نہیں ہوں لیکن یہ سوچ رہا تھا کہ جب میرے دادا یہ سنیں گے کہ تم جادوگرنی ہو تو مجھے تمہارے ساتھ شادی کی اجازت نہیں دیں گے۔


مخمور:۔ کیا خوب۔ آپ ابھی سے شادی کی فکر بھی کر نے لگے۔ ہوش کے ناخن لو۔ کہاں میں اور کہاں تم۔ کیسی شادی اور کہاں کا نکاح؟


نور الدھر:۔ دیکھیئے یہ انکار اچھا نہیں ۔


مخمور:۔ یہ تو میں مذاق کر رہی تھی ، لیکن اصل میں میں دل سے اسلام لانا چاہتی ہوں۔ جادوگر دنیا کی فتح کے بعد جادوگری سے توبہ کرکے اسلام لے آئوں گی۔ اس وقت تک ٹا ٹا۔


قاضی صاحب:۔ ہیئر ہیئر ۔﴿ تالی بجاتا ہے﴾


نور الدھر:۔ آداب بجا لاتا ہوں جناب۔﴿ جھک کر آداب کرتا ہے﴾


مخمور:۔ بندی بھی آداب بجا لاتی ہے۔﴿ جھک کر آدا ب کرتی ہے ﴾


ْْقاضی صاحب:۔ یہ کیا ہورہا تھا؟


نقیب:۔ عریانی اور فحاشی سر۔ ان کی تو ایف آئی آر کٹنی چاہیے۔ ان کا تو کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔


قاضی صاحب:۔ خاموش رہو۔ بے ہودہ۔ یہی تو کوچہ، ثقافت کے اصل رہنے والے ہیں۔لیکن اب ان کی عمریں چودہ پندرہ سال کی نہیں ہیں بلکہ وہی دو دو سو سال کی ہیں۔ کیوں بچو؟ ٹھیک ہے نا؟


مخمور:۔ ﴿ گاتی ہے﴾


میں چودہ برس کی


تو سولہ برس کا


نہ ۔ نہ۔ نہ ۔نہ


میں دوسو برس کی


تو بھی دوسو برس کا


برق عیار:۔ ﴿عورت کے بھیس میں ، گاتے ہوئے داخل ہوتا ہے﴾۔


﴿زنانہ آواز میں﴾ میں دوسو برس کی


﴿ مردانہ آواز میں﴾ میں دوسو برس کا


نقیب:۔ با ادب با ملاحظہ ، ہوشیار۰۰۰۰۰۰


﴿ اچانک برق عیار کی طرف غور سے دیکھتا ہے﴾ ابے تو ۰۰۰؟


﴿ برق کے پیچھے بھاگتا ہے اور اسی طرح دونوں بھاگتے ہوئے اسٹیج کا ایک چکر لگا کرپھر اپنی جگہ پر کھڑے ہوجاتے ہیں﴾


ْقاضی صاحب:۔ آرڈر، آرڈر۰۰۰۰، یہ کیا ہورہا ہے؟


نقیب:۔ سر، یہ وہ ہے۔


قاضی صاحب:۔ یہ وہ ہے؟ وہ کیا؟


نقیب:۔ ﴿ تالی بجا کر گاتے ہوئے﴾


طیب علی پیار کا دشمن ہائے ہائے۔


میری جان کا دشمن، پیار کا دشمن ہائے ہائے۔


یہ بننے نہ دے میری سلمیٰ کو میری دلہن۔


طیب علی پیار کا دشمن ہائے، ہائے۔


قاضی صاحب:۔ اوہ! تو یہ سلمیٰ ہے؟


نقیب:۔ نہیں سر ۰۰۰


قاضی صاحب:۔ طیب علی؟۰۰۰۰


نقیب:۔ نہیں سر۰۰۰


قاضی صاحب:۔ بیگم نوازش علی؟


نقیب:۔ سر یہ تیسری قوم سے ہے۔ نہ ہیوں میں، نہ شیوں میں۔


قاضی ساحب:۔ اوہ۔ نان سنس۔


مخمور:۔ جنابِ عالی، یہ امیر حمزہ کی فوج کا برق عیار ہے۔عمرو عیار کا بیٹا۔ اس کا کام بھیس بدل کر جادوگروں کو مارنا ہے۔


برق عیار:۔ ﴿ نعرہ مارتا ہے﴾ جادو برحق ، کرنے والا کافر۔


بندی آداب بجا لاتی ہے۔﴿ جھک کر سلام کرتاہے﴾


قاضی صاحب:۔ تو یہ جادوگروں کے ساتھ ساتھ جادوگرنیون کو بھی مارتا ہے؟


مخمور:۔ نہیں جناب، وہ تو پہلے ہی اسلامی فوج کے شہزادوں پر مرتی ہیں۔


قاضی ساحب:۔ جیسے کہ۰۰۰۰


مخمور:۔ جیسے کہ میں۔ میں اس شہزادے پر مرتی ہوں۔


﴿ نور الدھر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ شہزادہ نور الدھر شرما کر منہ چھپا لیتا ہے﴾۔


قاضی ساحب :۔ ﴿ خوش دلی سے﴾ اچھا جائو مرو۔ لیکن خیال رہے کہ ہم نے تمہاری خاطر، اس تمام جھگڑے کا سوموٹو نوٹس لے لیا ہے۔


برق عیار:۔ ﴿ نعرہ مار کر﴾ جادو برحق ، کرنے والا کافر۔


جنابِ عالی۔ کیا ان جادو گروں کے لئے ہم جیسے عیار اور ان کی جادو گرنیوں کے لئے ہمارے شہزادے ہی کافی نہ ہوتے؟


نقیب:۔ ﴿ اس کی طرف لپکتے ہوے، اس کا گریبان پکڑ لیتا ہے﴾ ابے تیرے لئے تو میں ہی کافی ہوں۔


برق عیار:۔﴿ چیختاہے﴾۔ بچائو۰۰۰ بچائو۰۰ ارے کوئی ہے۔


﴿ برق عیا ر بھاگتا ہے اور نقیب اس کا پیچھا کرتا ہے﴾


قاضی صاحب:۔ نہیں، ٹھہرو، ٹھہر جائو۔ میرے بچو۔ اس وقت تو مغرب کا جادو سر چھڑھ کر بول رہا ہے۔اس وقت نہ تمہارے شہزادے اور نہ ہی تمہارے عیار کچھ کر سکتے ہیں۔ اگر کچھ کر سکتے ہیں تو یہ ہمارے حاضرین ہی کچھ کر سکتے ہیں۔


﴿ حاضرین کی طرف اشارہ کرتاہے﴾۔


لارڈ والڈیمورٹ:۔ ﴿ سامنے آتے ہوئے اپنی جادوئی چھڑی ہلا کر چیختا ہے﴾۔


مغرب کا جادو۔ امپیریو۔


﴿ اچانک ایک دھماکہ ہوتا ہے، اسٹیج کی روشنیاں جلنا بجھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ کچھ دیر بعد جب روشنی ہوتی ہے تو اسٹیج پر موجود لوگ تین ٹولیوں میں بٹ چکے ہیں۔ اسٹیج کے دائیں جانب، ہیری پوٹر، مخمور اور برق عیار آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔ بائیں جانب، گینڈالف سفید پوش اور فروڈو بیگنز، آپس میں باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور اسٹیج کے درمیان میں لارڈ والڈیمورٹ اور قاضی صاحب کے اطراف نقیب اور شہزادہ نور الدھر کھڑے ہیں﴾۔


لارڈ والڈیمورٹ:۔ یور ہائی نیس! کیوں نا ہم دشمنی، تعصب اور مقابلہ کی باتین چھوڑ کر امن وآشتی اور محبت اور بھائی چارگی کی باتیں کریں۔


قاضی صاحب:۔ بے شک، بے شک۔ ﴿ نقیب اور نور الدھر کی طرف دیکھ کر سر ہلاتا ہے۔ وہ دونوں بھی جواباً سر ہلا کر اپنی رضا مندی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ادھر مخمور اور برق عیار ہاتھ ہلا ہلا کرقاضی صاحب اور شہزادہ نور الدھر کو خبردار کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں﴾


لارڈ والڈیمورٹ:۔ اگر چہ مغرب نے اپنی طاقت، اپنی ترقی اور اپنے کلچر کی مدد سے ہمارے اوپر مکمل کنٹرول حاصل کیا ہوا ہے، لیکن ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی امن ، محبت اور بھائی چارہ سے مغرب کے دل جیت لیں۔


قاضی صاحب:۔﴿ تینوں مل کر سر ہلاتے ہوئے﴾ بے شک۔ بے شک ۔کیا خوب کہا ہے۔


نور الدھر:۔ ﴿ تینوں مل کر سر ہلاتے ہوئے﴾ بے شک۔ بے شک ۔کیا خوب کہا ہے۔


نقیب:۔ ﴿ تینوں مل کر سر ہلاتے ہوئے﴾ بے شک۔ بے شک ۔کیا خوب کہا ہے۔


لارڈ والڈیمورٹ:۔ ہمیں چاہئیے کہ ہم روشن خیال اعتدال پسندی کو اپنا لیں۔ کہ اسی میں ہماری نجات ہے۔


قاضی صاحب:۔﴿ تینوں مل کر سر ہلاتے ہوئے﴾ بے شک۔ بے شک ۔کیا خوب کہا ہے۔


نور الدھر:۔ ﴿ تینوں مل کر سر ہلاتے ہوئے﴾ بے شک۔ بے شک ۔کیا خوب کہا ہے۔


نقیب:۔ ﴿ تینوں مل کر سر ہلاتے ہوئے﴾ بے شک۔ بے شک ۔کیا خوب کہا ہے۔


قاضی صاحب :۔ کس قدر عمدہ خیالات ہیں۔


لارڈ والڈیمورٹ؛۔ ہمارہ نعرہ امن، دوستی، محبت۔


نور الدھر؛َ کتنی اچھی باتیں کرتے ہیں آپ۔


نقیب:۔ حضرت! آپ کے منہ سے تو پھول جھڑتے ہیں۔


لارڈ والڈیمورٹ:۔ تھینک یو! جی بس کیا عرض کروں ۔ یہ سب آپ کے حسنِ نظر کا کمال ہے۔


نقیب:۔ یا پھر آپ کی نظر بندی کا کمال ہے۔ آپ نے توحضرت ، جادو کردیا ہے۔


لارڈ والڈیمورٹ:۔ ﴿ غراتے ہوئے﴾ جی کیا کہا؟


نقیب:۔ میرا مطلب ہے۰۰۰۰ میرا مطلب ہے ۰۰۰۰﴿ والڈیمورٹ اپنی جادوئی چھڑی اس کی طرف اٹھاتا ہے﴾


نقیب:۔ ﴿ دونوں ہاتھ اٹھا کر اسکے جادو سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے﴾ نہیں۔ نہیں۔ نہیں۔


مخمور:۔﴿والڈیمورٹ کی طرف دونوں ہاتھ اٹھا کر﴾ ایکس پیلی آرمس۔ایکس پیلی آرمس۔ایکس پیلی آرمس۔


ہیری پوٹر:۔ ﴿ والدیمورٹ کی طرف اپنی جادوئی چھڑی اٹھا کر ﴾ ایکس پیلی آرمس۔ایکس پیلی آرمس۔ایکس پیلی آرمس۔






﴿ ہلکا سا دھماکہ ہوتا ۔ ٹھس۔ گویا جادو بیکار گیا﴾۔


برق عیار:۔ ﴿ اپنا ہاتھ بڑھائے ہوئے لارڈ والڈیمورٹ کی طرف پہنچتا ہے﴾ اجی جناب۔ کبھی ہم غریبوں کو بھی لفٹ کروادیا کیجیے۔


لارڈ والڈیمورٹ:۔ ﴿ مسکرا کر اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے﴾ ضرور۔ ضرور۔ آپ ملتی ہی کہاں ہیں۔


برق عیار:۔ ہم تو آپ کے قدموں میں پڑے ہیں ۔ ہم نے تو اپنا دل آپ کے قدموں میں دال دیا ہے۔


لارڈ والڈیمورٹ:۔ ﴿ سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے﴾ یہاں ۔ یہاں۔


﴿ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اسٹیج سے باہر چلے جاتے ہیں۔


﴿ ایک زور دار دھماکہ ہوتا ہے۔ روشنیاں جلنے بجھنے لگتی ہیں۔ اسٹیج پر موجود لوگ چونک کر ادھر ادھر بکھر جاتے ہین۔


﴿ پردہ ﴾










دوسرا منظر۔






﴿ وہی جگہ ہے مگرذرا سی تبدیلی کے ساتھ۔ بائیں طرف لگا ہوا ، قاضی القضاۃ، کا بورڈ غائب ہے۔ اس وقت اسٹیج پر کوئی موجود نہیں ہے۔ البتہ پردہ اٹھنے کے تھوڑی ہی دیر بعداسٹیج کے پیچھے سے کسی کے چیخنے کی آواز آتی ہے۔، ھائے میں مر گیا، خوجی چیختے ہوئے اور ان کے پیچھے ان کی موٹی سی بیوی داخل ہوتے ہیں۔خوجی پست قد آدمی ہیں، کرتا پائجامہ، اور ترکی ٹوپی پہنے ہوئے ہیں۔ بیوی کی ایک جوتی اسکے ہاتھ میں ہے جسے وہ بلا تکلف ان کی پیٹھ پر استعمال کر رہی ہے۔﴾


بیوی:۔ لے ۔اور لے۔﴿ مارتے ہوئے﴾ لے ۔ اور لے۔


خوجی:۔ ھائے بیگم اب نہیں مارو۔ بخدا اب نہیں مارو۔


بیوی:۔ پھر دیکھے گا پرائی لڑکیوں کو۔﴿ نقل اتارتے ہوئے﴾ اف بیگم کتنی خوبصورت لڑکی ہے۔﴿ پھر دو جوتیاں لگاتی ہے﴾


خوجی:۔ ھائے بیگم خدا کی قسم۔ تمہاری قسم بیگم۔ اب نہیں دیکھوں گا۔ چاہے کتنی ہی خوبصورت لڑکیاں کیوں نہ گزریں سامنے سے۔


بیوی:۔ اچھا تو اب توبہ کر میرے سامنے۔


خوجی:۔ میری توبہ۔ میرے باپ کی توبہ۔ لیکن پیاری بیگم میری ایک بات ما نو گی؟


بیوی:۔ بکو جلدی سے۔


خوجی:۔ وہ دراصل بات یہ ہے کہ ابھی میاں آزاد پاشا یہاں آنے والے ہیں۔ ان کے سامنے مجھے مت پیٹنا اور نہ ہی مجھے خوجی کہنا۔


بیوی:۔ کیوں ۔ تو وہ میرا کیا کر لے گا؟


خوجی:۔ در اصل وہ مجھے اپنے مذاق کا نشانہ بنایئں گے کہ اتنا بہادر نوجوان بنتا ہے، لیکن بیوی کی جوتیاں بڑے مزے سے کھاتا ہے۔


بیوی:۔ ہوں ﴿ سوچ کر، جوتی دکھاتے ہوئے﴾ لیکن یاد رہے۔۔۔


خوجی:۔ ھائے بیگم تم تو کمال ہو۔ تمہیں دیکھ کر تو مجھے یہ شعر یاد آگیا۔


ان کو آتا ہے پیار پر غصہ


ہم کو غصے پہ پیار آتا ہے۔


بیوی:۔ ﴿ پھر جوتی سے پیٹتے ہوئے﴾ خوجی مردود۔ تو نے پھر افیم کھائی ہے۔ تو نے پھر نشہ کیا ہے۔


خوجی:۔ ھائے بیگم ، تمہارے سر کی قسم آج نہیں کھائی۔


بیوی:۔ پھر یہ بہکی بہکی باتیں کیوں کر رہے ہو؟


خوجی:۔ ھاے بیگم ، یہ تو شاعری ہے۔ خیر جانے دو۔﴿ پیار سے﴾ آج کھانے میں کیا پکایا ہے؟


بیوی:۔ ﴿ اٹھلا کر﴾ تمہارا سر۔ سارا دن نشے میں دھت رہتے ہو۔ گھر میں پکانے کو کچھ نہیں ۔ جائو ، اور جاکر مزدوری کرو اور کچھ کھانے کے لیے لے آئو۔


﴿ میاں آزاد اسٹیج کی دایئں طرف سے داخل ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک بورڈ ہے جس پر ’’ کھلی کچہری ‘‘ لکھا ہوا ہے﴾


میاں آزاد:۔ اوہو۔ آداب بیگم صاحبہ، آداب خوجی صاحب، میرا مطلب ہے، خواجہ بدیع الزماں صاحب۔


خوجی:۔ آداب میاں آزاد۔ کہیے کیا ارادے ہیں؟


بیوی:۔ آداب آزاد بھائی۔ کہیئے ہماری حسن آرائ بہن تو خیریت سے ہیں۔


آزاد:۔ میں اور حسن آرائ تو خیریت سے ہیں۔ آپ دونوں سنائیے، کیا مزے ہیں؟


بیوی:۔ اجی کیا سنائیں ۔ یہ مردود خوجی ، کام کا نہ کاج کا۔ دشمن اناج کا۔ ہر وقت افیم کے نشے میں دھت رہتا ہے۔


خوجی:۔ دیکھئے اس کی نہیں ہوتی۔


بیوی:۔ ٹھہر تو سہی نامراد۔ تجھے پھر سے جوتیاں نہ ماروں تو؟


خوجی:۔ ﴿ دور ہٹتے ہوے﴾بس بس بیگم۔ ارے کوئی بچائو۔ ارے کوئی ہے؟


بیوی:۔ میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی۔﴿ چلی جاتی ہے﴾


آزاد:۔ ﴿ مسکراتے ہوے﴾ کیوں خوجی۔ کیا معاملے ہیں۔


خوجی:۔ اجی بس کیا بتائوں۔ بیگم کو ہر وقت پیار آرہا ہوتا ہے مجھ پر۔


آزاد:۔ پیار یا۔۔۔۔ جوتوں بھرا پیار اور پیار بھری مار۔


خوجی:۔﴿ سنی ان سنی کرتے ہوے﴾ خیر چھوڑئیے ان باتوں کو۔ سنا ہے، قاضی صاحب نے سو موٹو نوٹس لے لیا ہے اور آج ان جادوگروں کی پیشی ہے؟


آزاد:۔ اجی حضرت! کیسا نوٹس اور کہاں کی پیشی۔ خود قاضی صاھب تو پی سی او کے تحت باہر ہوگئے۔


خوجی:۔ باہر ہوگئے؟


آزاد:۔ بلکہ یوں کہیے کہ اندر ہوگئے۔


خوجی:۔ اب کیا ہوگا۔ سنا ہے کہ لارڈ وال۔۔۔۔۔ لارڈ وال۔۔۔۔


آزاد:۔ لارڈ والدیمورٹ۔


خوجی:۔ وہی، وہی۔ سنا ہے کہ وہ بہت زبردست جادوگر ہے۔


آزاد:۔ اجی حضرت چھوڑئے۔ ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ اور پھر ہمارے ساتھ وہ بہادر بچہ، عالی بھی تو ہے۔


خوجی:۔ اور ہماری بہادری کاتو آپ ذکر کرنا ہی بھول گئے۔ ساری دنیا میں دہشت ہے ہماری۔


آزاد:۔ جی ہاں۔ جی ہاں۔


جوتیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا


﴿ پرانے بورڈ کی جگہ پر نیا بورڈ لگا دیتے ہیں، جو ابتک ان کے ہاتھوں میں تھا اور ناظرین اسے دیکھ سکتے تھے﴾


خوجی:۔ جی بس ایک بیگم پر ہی ہماری نہیں چلتی، ورنہ تو ساری دنیا میں دھوم ہے ہماری۔ مار مار کر بھرکس نہ نکال دیں تو کہیئے آپ کے اس لارڈ وال۔۔۔ لارڈ وال۔۔۔


آزاد:۔ لارڈ والڈیمورٹ۔


خوجی:۔ وہی، وہی۔ وہی جس کا نام نہیں لینا چاہیئے۔


آزاد:۔ ﴿ اچانک دایئں دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے﴾ لیجئے وہ آگیا لارڈ والڈیمورٹ۔


خوجی:۔ ﴿بھاگ کر آزاد کے پیچھے جا چھپتے ہیں﴾ ھائے میرے اﷲ


آزاد:۔ بس دم نکل گیاخوجی میاں۔ اب اگر سچ مچ آ جائے تو ، وہ جس کا نام نہیں لینا چاہیئے، یعنی ﴿ چیخ کر﴾ لارڈ والڈیمورٹ۔


﴿ اچانک ایک کڑک اور دھماکہ سنائی دیتے ہیں اور لارڈ والدیمورٹ اسٹیج پر داخل ہو تا ہے۔ خوجی ایک بار پھر آزاد کے پیچھے چھپ جاتے ہیں﴾


لارڈ والڈیمورٹ:۔ آدم بو۔ آدم بو۔


آزاد:۔ جادوگر بو۔ جادوگر بو۔


لارڈ اولدیمورٹ:۔ یہ کس نے ہمارا نام لینے کی ہمت کی؟


آزاد:۔ ﴿ کڑک کر﴾ لارڈ والڈیمورٹ۔


﴿لارڈ والدیمورٹ اپنے دونوں ہاتھ آزاد کی طرف فضائ میں بلند کرتا ہے اور پھر ایک دھماکہ سنائی دیتا ہے﴾


آزاد:۔ ﴿ پھر دبنگ لہجے میں﴾ لارڈ والڈیمورٹ۔


﴿ لارڈ والڈیمورٹ ایک مرتبہ پھر اپنے ہاتھ فضائ میں لہراتا ہے، اور ایک دھماکہ کی آواز بلند ہوتی ہے﴾


آزاد:۔ ﴿ ایک بار پھر کڑک کر﴾ لارڈ والڈیمورٹ۔


لارڈ والڈیمورٹ:۔ ﴿ ہاتھ نیچے جھٹکتے ہوئے﴾ یو پیپل آر ہوپ لیس۔


﴿ حاضرین کی طرف دیکھ کر کندھے اچکاتا ہے۔ اتنے مین خوجی کی بیوی داخل ہوتی ہے﴾


بیوی:۔ یہ کیا ہنگامہ ہے؟ ضرور خوجی مردود افیم کے نشے میں غل غپاڑہ مچا رہا ہوگا۔


خوجی:۔ ﴿ ّآزاد کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے﴾ بیگم، بیگم۔ لارڈ وال۔۔۔۔ لارڈ وال۔۔۔۔


بیوی:۔ لارڈ والڈیمورٹ؟


خوجی:۔ وہی، وہی۔


بیوی:۔ اس سے تو میں ابھی سمجھتی ہوں۔


﴿ جوتی نکال کر اس پر پل پڑتی ہے﴾


بیوی:۔ کیوں رے مردود۔ تجھے میں جوتی کی نوک پر رکھتی ہوں۔ بڑ ا آیا لارڈ کہیں کا۔ ﴿ لارڈ والڈیمورٹ کے پیچھے بھاگتے ہوئے اسے جوتیاں رسید کرتی جاتی ہے﴾


لارڈ والڈیمورٹ:۔ ارے میں مرا، ارے مجھے بچائو، ارے کوئی ہے۔ بچائو، بچائو۔


( دونوں بھاگتے ہوئے اسٹیج کے چکر لگاتے ہیں ۔ اچانک لارڈ والڈیمورٹ لڑ کھڑا کر اسٹیج پر ڈھیر ہوجاتا ہے۔ بیوی دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر فاتحانہ انداز میں ناظرین کو دیکھتی ہے۔﴾


آزاد:۔ ہیئر ہیئر۔﴿ تالیاں بجاتا ہے﴾


بیوی:۔ آزاد بھائی ۔ آپ ہی کو تو میں ڈھونڈ رہی تھی۔ حسن آرائ آپ سے ملنے کے لیئے ادھر ہی آ رہی ہیں۔


آزاد:۔ اب کیا یہاں بازار میں بجلیاں گرائیں گی؟


بیوی:۔ سنا ہے آپ جنگ سے واپسی پر ابتک ان سے نہیں ملے۔ اسی لئیے وہ پریشان ہوکر آپ کو ڈھونڈتی پھر رہی ہیں۔


آزاد:۔ وﷲ۔ کیا کہنے حسن آرائ بیگم کے۔


نقیب؛َ ﴿ پردے کے پیچھے سے آواز لگاتاہے﴾ با ادب، با ملاحظہ ، ہوشیار۔ حسن آرائ بیگم تشریف لاتی ہیں۔


حسن آرائ:۔ ﴿ غرارہ پہنے ہوئے، شرماتی ہوئی داخل ہوتی ہیں﴾ آداب۔﴿ جھک کر آداب کرتی ہے﴾


آزاد:۔ کہیئے۔ حسن آرائ بیگم، کیسی رہیں؟


حسن آرائ:۔ آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔ ہمارے گھر سے نکلے اور سیدھے جنگ پر چلے گئے۔


آزاد:۔ آپ ہی کی تو فرمائش تھی کہ جنگ پر جائوں اور بہادری کا میڈل لے کر آئوں۔


حسن آرئ:۔ کہنے کو تو میں کہ گئی تھی۔ لیکن بعد میں جو پریشانی ہوئی، وہ کچھ میں ہی جانتی ہوں۔


آزاد:۔ اسی لیئے اب بازار میں مجھ کو ڈھونڈنے نکل پڑیں۔


حسن آرائ:۔ ( شرماتے ہوئے) جی ہاں!


آزاد:۔ جنگ سے فارغ ہوکر یہاں پہنچا تو یاروں سے پتہ چلا کہ اب جادوگروں سے جنگ کرنی ہے۔






حسن آرائ:۔ تو اس جادوگر کو بھی آپ ہی نے مارا ہے؟ ﴿ لارڈ والڈیمورٹ کی طرف اشارہ کرتی ہے﴾


آزاد:۔ جی نہیں۔ اسے تو ہماری بہن نے اپنی جوتیاں مار مار کر مار ڈالا ہے۔


﴿حسن آرائ خوجی کی بیوی کو گلے لگا لیتی ہے﴾


آزاد:۔ جی تو چاہتا تھا کہ آج اس کھلی کچہری میں اس مقدمے کا فیصلہ کروالیا جائے ﴿ ناظرین کی طرف اشارہ کرتا ہے﴾ لیکن ہماری بہن نے خود ہی اسکا فیصلہ کر ڈالا اور مردود لارڈ والڈیمورٹ کو ٹھکانے لگا دیا۔ ہماری اپنی کہانیوں کے کرداروں کو سلام۔ ہماری اپنی کہانیوں کو سلام۔﴿ سلیوٹ مارتا ہے﴾


﴿ نقیب دروازے سے اسٹیج پر داخل ہوتا ہے اور ناظرین کے سامنے آجاتا ہے۔پیچھے تمام اداکار ایک ایک کرکے اسٹیج پر آنا شروع ہوجاتے ہیں﴾


نقیب:۔ تو صاحبو یوں ہماری یہ کہانی ختم ہوئی۔ آج سے تقریباً سو سال پہلے جو کام آزاد، حسن آرائ اور خواجہ بدیع الزماں خوجی وغیرہ نے شروع کیا تھا، یعنی جادو گری کی کہانیوں سے چھٹکارہ، آج ہماری کہانیاں اس سے بہت آگے بڑھ گئی ہیں۔آج سو سال کے بعد پھر مانگے تانگے کی جادوئی کہانیوں پر جانا کوئی بہت اچھی بات نہیں۔ آیئے اپنی ہی کہانیوں کو آگے بڑھایئں۔آپکی توجہ کا بہت شکریہ۔


پردہ گرتا ہے۔