Sunday, August 27, 2023

 بارش آئی

بچوں کے لیے ایک نظم از محمد خلیل الرحمٰن

بادل گرجا بارش آئی ٹپ، ٹپ، ٹپ، ٹپ، ٹپ
ہم بچوں نے دھوم مچائی تھپ، تھپ، تھپ، تھپ، تھپ

تیز ہوئی جب بارش، برسی چھم، چھم، چھم، چھم، چھم
کھیلے اور آنگن میں نہائے سب بچے اور ہم

بادل ٹوٹ کے برسے، نالے بہنے لگے بھل ، بھل
سڑکیں، گلیاں اور میدان بھی ہوگئے سب جل تھل

بارش نے کھیتوں، کھلیانوں کو سیراب کیا
سڑکوں اور میدانوں کو بھی زیر آب کیا

بارش میں جب بھیگی بلی، بولی میاؤں، میاؤں
خشک کیا تب بھی بھی یوں بولی ، میاؤں، میاؤں، میاؤں

Wednesday, October 30, 2019

صفیہ اختر کا ایک خط


پیارے اختر!،

کل ہی تُم کو خط لکھا ہے،
دل تمہاری خیریت میں ہی لگا ہے،
نظم پڑھ لی انجمن میں؟،
یہ غزل جو تُم نے لکھی ہےتمہارے دور سے دو سو برس پہلے کے شاعر کا تغزل لگ رہا ہے،
بیٹھے بیٹھے یہ تمہیں کیا سوجھتی ہے؟،
پھر بھی اس کے بعض شعروں کا ( کہوں گی) مجھکو جیسے چبھ گئے ہیں،
ایسا لگتا ہے کہ میرے ہی کہے کو تُم نے شعروں میں پرویا،

آج کل تو گھر بھرا ہے،
یوں نثار اور جاروے سے آیا لڑکا اور شمیم اپنے سبھی باہر کے کمرے کو سجا رکھے ہوئے ہیں،
اور اِدھر منی علیگڑھ جانے پر اصرار کرتی جارہی ہے،
چاہتی ہوں جس طرح ہو بس وہ بے فکری سے پڑھ لے،
دیکھو ( کیا ہو)۔۔۔،

سلسلہ بچوں کی بیماری کا چلتا ہی چلا جائے ہے اب تو!،
کیا مری یہ زندگی ساری یونہی ناکام سی گزرے گی اختر!
خدمتیں میری تمہارے واسطے ہوں گی کبھی یا ،
دور ہی سے میں تمہیں پوجا کروں گی،
دور ہی سے پاس آنے کے اشارے تُم یونہی کرتے رہو گے
آج پانی یوں برستا جارہا ہے جیسے برسے گا نہ پھر سے اب کبھی بھی،
آگ برہا کی تو ایسے میں بھڑک اُٹھتی ہے میرے دوست( پیارے) 

صفو اختر

Wednesday, August 1, 2018

ایک بیکل گزاری ہوئی اتوار کی صبح

تمہيد:

اتوار کی خوبصورت صبح جوں ہی ہمارے چہرے پر طلوع ہوئی، يعنی ہماری نصف بہتر نے ہمارے چہرے پر سے چادر ہٹاتے ہوئے ہميں يہ روح فرسا خبر سنائی کہ ہمارا پيارا اخبار پانی سے بھری ہوئی بالٹی کی نذر ہوچکا ہے، ہم بے چين ہوگئے ۔ اتوار کی خوبصورت صبح گئی بھاڑ ميں، اور تمام تر سُکھ چين اِس بے کلی کی نذر ہوئے۔

اتوار کی صبح ايک مہذب انسان کے ليے سب سے خوش گوار وہ لمحات ہوتے ہيں جب آنکھ کھلتے ہی بيگم کی سُريلی آواز کانوں ميں رس گھولتی ہے: ’’ليجيے يہ آپ کا نگوڑا اخبار آگيا ہے۔‘‘

اب ہم اخبار کو بائيں ہاتھ سے تھامتے ہيں، آنکھيں بند کيے ہی اسے کھولنے کی تگ و دو کرتے ہيں ، داہنے ہاتھ سے اپنی عينک سنبھالتے ہوئے اسے اپنی ناک پر بٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ سے يوں گويا ہوتے ہيں: ’’بيٹا ! لو اب آنکھيں کھولو‘‘۔ اخبار ميں خبروں کا سيکشن، مقامي سيکشن اور کتب کي دنيا کے علاوہ ايک اور اہم حصہ ہمارا منتظر ہوتا ہے جہاں حسينانِ جہاں کي رنگين اور خوبصورت تصويريں سجي ہوتي ہيں۔ ہم دنيا و مافيہا سے بے خبر اس حسين دنيا ميں کھوسے جاتے ہيں۔ ہالي وڈ، بالي وڈ اور لالي وڈ کي چٹ پٹي خبريں اور حسينانِ ختن کي شوخ و چنچل ، اداؤں بھري رنگ برنگي تصويريں۔

ليکن آج يہ کيا غضب ہوگيا ۔ آن کي آن ميں يہ کيا ماجرا ہوگيا کہ اخبار کا اخبار پاني ميں شرابور ہوگيا۔ ہائے حسينانِ ختن ! کے پاني ميں بھيگے ہوئے چہرے۔۔۔ اُف وہ توبہ شکن حسنِ نمکين ۔۔ ہمارا مطلب ہے، ارے کوئي ہے جو اس اخبار کو خشک کر دے تاکہ ہم گزرے ہوئے کل کي وہ خبريں پڑھ سکيں جنہيں ٹي وي اسکرين پر نہيں ديکھ سکے تھے۔ اور اس طرح اپني معلومات ميں اضافہ کريں۔ مطالعہ علم حاصل کرنے کا ايک بڑا اہم ذريعہ ہے۔

اپني اس دُہائي کاکوئي خاطر خواہ جواب نہ پاکر ہم نے صورتِ حال کا بغور جائزہ لينے کي ٹھاني اور مائل بہ عمل ہوگئے۔۔

پس منظر:

ہمارا اخبار والا روز کا اخبار تو کچن کي بالکوني سے اوپر پھينکتا ہے، البتہ اتوار کا اخبار ضخيم ہونے کي وجہ سے اوپر آکر دروازے کي نچلي درز سے اندر سرکا ديتا ہے۔ يہ اس کا معمول ہے۔

پيش منظر:

آج چونکہ ہمارا معمول کا اخبار والا چھٹي پر تھا لہٰذا اس کي جگہ لينے والے نے اتوار کا ضخيم اخبار بھي بنڈل بناکر بالکوني سے اوپر کي جانب اچھال ديا ۔ حسنِ اتفاق کہيے يا سوئے اتفاق، کل رات پاني کي فراہمي ميں تعطل کے پيشِ نظر ہماري نصف بہتر نے (حفظِ ما تقدم کے طور پر )کچن کي بالکوني ميں ايک عدد بالٹي پاني سے بھري رکھ چھوڑي تھي تاکہ سحري ميں برتن دھونے کے کام آئے۔ وہ بالٹي اس طرح داشتہ آيد بکار کے مصداق کام آئي کہ اخبار نے فوراً اس کے اندر گھر کيا اور مآلِ کار ہمارے چہرے پر چھينٹے اُڑاتے ہوئے ہمارے ہاتھوں ميں آيا۔

اشيائے ضرورت:

ہمارے اِس تجربے کے ليے مندرجہ ذيل نکات کا خيال رکھنا نہايت ضروري ہے
1.برقي رو کي فراہمي ميں تعطل نہ ہو۔
2.اخبار اتوار ہي کا ہو
3.گھر ميں موجود بجلي کي استري قابلِ استعمال ہو اور اِس ميں کوئي بنيادي نقص نہ ہو۔
ہمارا کامياب تجربہ:
ہم نے سب سے پہلے احتياط کے جملہ تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خبروں کا حصہ اُٹھايا اور اس کے صفحات پر نہايت احتياط سےاستري پھيرتے چلے گئے۔ جب وہ کافي حد تک خشک ہوگيا تو اسے اپنے بستر پر ہلکے پنکھے ميں سوکھنے کے ليے پھيلا ديا۔ پھر مقامي سيکشن پر ہاتھ صاف کيا اور سب سے آخر ميں کتب دنيا پر اچھي طرح تجربہ کرنے کے بعد ہم تيار تھے کہ اپنے پسنديدہ اتوارميگزين کو خشک کريں جہاں پر چند حسينوں کے پاني ميں بھيگے ہوئے نمکين چہرے ہمارے منتظر تھے۔ ليکن!!! نصف بہتر کي قہر آلود نظروں نے ہميں اس منصوبے پر عمل درآمد سے باز رکھا اور ہم ان خوب صورت چہروں کوبستر پر پھيلا کر باقي ماندہ خشک اخبار کي بے مقصد ورق گرداني اور وقت گزاري کرنے لگے۔
ہمارا ناکام انجام:
انتظار، انتظار، انتظار۔۔۔۔۔ اے نسيمِ صبح!، جلد اِس پاني کو خشک کردےتاکہ ہم ان حسيناؤں کے چہروں پر نظر ڈالتے ہوئے اپنے سہانے دِن کا آغاز کرسکيں۔
سبق:
اس تجربے سے ہميں يہ سبق ملتا ہے کہ اخبار پڑھتے وقت ، خاص طور پر حسينوں کے گداز چہروں پر نظر ڈالتے وقت، خيال رکھيے کہ بيگم صاحبہ کچن ميں مصروف ہيں۔ ان کے قريب آتے ہي خبروں والے حصے کا بغور مطالعہ شروع کرديجيے کہ سياست، صحافت، مذہب، دِگرگوں سماجي و معاشرتي حالات ہي آپ کے مطالعۂ اخبار کا مطمحِ نظر ہيں۔ خبردار
«سيکھے ہيں مہ رخوں کے ليے ہم مصوري»

کا راز کہيں بيگم پر افشاٗ نہ ہوجائے۔

Monday, October 20, 2014

پاکستان اور امریکہ از محمد خلیل الرحمٰن


محمد خلیل الرحمٰن​





پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو نقشے پر کچھ اورہے ، کتابوں میں کچھ اور، حقیقت میں کچھ اور۔جس کے رہنے والوں 

پاکستانی بہت کم اور سندھی 



بلوچی پٹھان پنجابی اور مہاجر بہت زیادہ ہیں۔ بعینہ پاک امریکہ تعلقات نقشے پر کچھ اور ہیں، اخباری بیانات میں کچھ اور 

ہیں ، پس پردہ کچھ اور۔


پاکستان کی برآمدات:


پاکستان کی برآمدات میں جہادی، کپاس، چاول اور گندم بہت نمایاں ہیں۔دوسرے درجے کی برآمدات میں غیر قانونی 

تاریکین، سوتی کپڑے کی 



مصنوعات اور چمڑا شامل ہیں۔دنیا کے بہت سے ممالک نے پاکستان کی مصنوعات پر پابندی لگارکھی ہے لیکن پاکستانی 

جہادی اور غیر قانونی تارکین کی 



اسمگلنگ ہر وقت جاری رہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی دنیا کے ہر خطے میں نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں امریکہ کو سب 

سے زیادہ خطرہ میکسیکنز اور



 پاکستانیوں سے ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر امریکہ میں داخلے کے لیے پاندیاں ختم کردی جائیں تو پاکستان 

اور میکسیکو ایک گھنٹے کے اندر اندر



 خالی ہوجائیں گے۔


پاکستانی درآمدات:


مشہور پاکستانی درآمدات میں امریکن ڈالر، امریکن سنڈی ، یو ایس ایڈ ، ریمنڈ ڈیوس اور بلیک واٹر شامل ہیں



پاکستانی شہری:




پاکستانی شہریوں کی بڑی تعداد مسلمان ہے جن کی دلی خواہش جنت اور امریکن ویزے کا حصول ہے۔ پاکستان کا ہر شہری 

امریکہ جانے کا خواہش 



مندہے۔ ہر دوسرے شہری نے امریکن ویزے کے حصول کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ ہر پانچواں شہری

 امریکہ کا دورہ کرچکا ہے اور ہر 



دسویں شہری کے عزیز و اقارب امریکہ میں رہتے ہیں ۔



پاکستانی حکومت:


امریکن ویزے کا حصول ہمارے سیاسی رہنماؤں کی مجبوری ہے اور اپنی تحریروں اور تقریروں میں امریکہ کی مخالفت

 ان کی سیاسی ضرورت، جبکہ اپنے 


بچوں کو امریکن یونیورسٹیوں سے پڑھوانا ، وقت کی ضرورت ہے۔باہر کی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر ان کے بچے غریب 

پاکستانی عوام کی مجبوریوں کو 


سمجھنے اور اپنے والد کی پارٹی میں ان کی جگہ سنبھالنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔


ہم امریکہ سے سخت نفرت کرتے ہیں لیکن امریکن پالیسیوں کی حمایت ہمارا فرضِ عین اور یو ایس ایڈ وصول کرنا فرضِ 

کفایہ ہے۔ حکمرانوں کی جانب 


سے یہ ایڈ ہڑپ کرجانے سے یہ فرض سب عوام کی جانب سے بھی ادا ہوجاتا ہے۔


پاکستان امریکن تعلقات:


دنیا کے بیشتر سامراجی ممالک میں امریکہ نے اپنی فوجیں اتاری ہیں لیکن پاکستان کے لیے اس کے ڈرون اور ‘ ڈو مور ’ 

کی دھمکیاں ہی کارگر ثابت 



ہوتی ہیں۔ ہمارے حکمران امریکی آشیر باد محسوس کرتے ہوئے حکمرانی کے جوہر دکھاتے ہیں جبکہ مخالف پارٹیاں اسی 

کے اشارے پر دھرنے ، 



دھونس اور ریلا ریلی کی پالیسی اپناتی ہیں۔ مخالف اکثر اسے خفیہ پیغامات بھیج رہے ہوتے ہیں کہ



ہر تیرگی میں تو نے اتاری ہے اپنی فوج


یاں بھی اتر کے آ ، کہ سیہ تر ہے یہ بساط​


یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے؟:


پاکستانی امریکہ سے محبت/ نفرت کرتے ہیں جبکہ امریکن پاکستان سے محبت/ نفرت کرتے ہیں۔ محبت اور نفرت کا یہ 

رشتہ ہی ان دونوں ممالک کے 



لازوال تعلق کی بنیاد اور وجہِ تسلسل ہے۔جب تک امریکن توسیع پسندی موجود ہے امریکہ ہم سے محبت کرتا رہے گا اور

 جب تک امریکن ایڈ اور 



امریکن ویزا موجود ہیں ہم امریکہ سے محبت کرتے رہیں گے۔




نوٹ: یہ تحریر مزاحیہ تحریر ہے۔

Wednesday, October 1, 2014

ریاضی سیکھنے کا بنیادی قاعدہ​

ریاضی سیکھنے کا بنیادی قاعدہ
محمد خلیل الرحمٰن
پیر و مرشد جناب یوسفی ایک جگہ رقم طراز ہیں۔
’’ ساتویں جماعت میں جب ہمیں انگریزی میں سو میں سے ۹۱ اور حساب میں پندرہ نمبر ملے تو ہم نے گردھاری لال شرما سے رجوع کیا۔
کہنے لگاکہ چنتا نہ کرو۔ بچار کرکے کل تک کوئی اُپائے نکالوں گا۔ دوسرے دن اس نے اپنا بچن پورا کیا اور اور حساب میں ۹۱ نمبر لانے کے دو گُر بتائے۔ پہلا تو یہ کہ بھوگ بلاس سے دور رہو۔ آج سے پرتگّیا کرلو کہ امتحان تک برہمچریہ کا پالن کرو گے۔ ہٹیلی کامنائیں یا چنچل بچار ہلّہ بول دیں تو تین دفعہ ’’ اوم ! شانتی ! شانتی! شانتی!‘‘ کہنا۔ اِس سے بیاکل ساگر اور بھڑکتا جوالا مُکھی بھی شانت ہوجاتا ہے۔اوم! شانتی! شانتی! شانتی!
’’ اور یار میاں جی! سادھارن جیون بِتانا سیکھو۔ گرم چیزوں سے ایکدم پر ہیز ۔ گوشت، گرم مصالحے ، گڑ کی گجک اور اردو گجل سے چالیس دِن الگ رہنا۔‘‘
اب یہ شانتی کھنا اور ٹوئینکل کھنا جیسی چنچل اور رسیلی مہیلاؤں کی یاد تھی یا پھر یوم الحساب کا ڈر کہ
اُنھیں تو نیند ہی آئی ’حساب‘ کے بدلے
ادھر یہ امرِ واقعہ ہے کہ مسلمانوں کو حساب سے ایک گونہ چڑ سی ہی رہی ہے۔ ایک بار پھر ہم بسندِ یوسفی عرض کرتے ہیں کہ، ’’ اعمال کے حساب کتاب کا جنجال بھی ہم نے کراماً کاتبین اور متعلقہ آڈٹ منکر نکیر کوسونپ رکھا ہے۔ ‘‘
یوں بھی اچھے ریاضی داں بننے کے لیے حساب میں دلچسپی رکھنا چنداں ضروری نہیں۔ مشہور ہے کہ عالمی شہرت یافتہ ریاضی داں آئن اسٹائن حساب میں کمزور تھا اور ہمیشہ حساب میں ہی فیل ہوتا۔ یقیناً اس کے یوں حساب میں کمزور ہوتے ہوئے کائینات کی عظیم ترین گتھی کے سلجھانے میں اسکی یہودیت کا بڑا دخل رہا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے بیٹے سے جو کسی اونچی جگہ سے چھلانگ لگانے کو کہا۔ بیٹا ڈرا تو اس نے کنگ خان کا ڈائیلاگ دہرا دیا ’’ ڈرو نہیں، میں ہوں نا!‘‘ ادھر بیٹے نے چھلانگ لگائی ، ادھر باپ راستے سے ہٹ گیا اور بیٹا اپنی ٹانگ کی ہڈی تڑوا بیٹھا۔باپ نے اسے زندگی کی اہم ترین نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ کبھی اپنے باپ پر بھی بھروسہ نہ کرو۔
یہی کسی پر بھی بھروسہ نہ کرنے کی عادت انھیں ہر ایک شخص، ہر ایک تصور اور ہر ایک اصول کو شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ انھیں دو اور دو چار کرنے کی عادت سی پڑ جاتی ہے۔ ادھر مسلمان ہے کہ اللہ کے بھروسے پر ہر شخص ، ہر اصول اور ہر تصور پر بھروسہ کرلیتا ہے۔ 
اس کے علاوہ ایک وجہ اور بھی ہے۔ یہ تین رقمی قانون ( یعنی حساب) ہماری سمجھ سے بالاتر تو ہے ہی، ہم جو نہ تین میں تیرہ میں، اسی تین تیرہ کرنے میں ایسے الجھ جاتے ہیں کہ ہماری کیفیت وہی تین تیرہ نو اٹھارہ کی سی ہوجاتی ہے۔ اب اس تین روزہ زندگی میں کون اتنے کھڑاگ پالے۔ ویسے بھیہ تین گناہ تو اللہ بھی بخش دیتا ہے۔ ہم تو بقول شخصے طول شب ِ فراق ہی ناپتے رہ جاتے ہیں۔
دعویٰ بہت سنا ہے ریاضی میں آپ کا
طولِ شبِ فِراق ذراناپ دیجیے
آج دیکھتے ہیں کہ کیا ریاضی قابلِ اعتبار ہے، یا اپنے پرکھوں کی طرح ہمیں بھی چاہئیے کہ اسے دوسروں پر چھوڑ دیں اور خود کو دیگر حوائجِ ضروریہ میں مصروفِ عمل کریں۔ انگریزی میں ایک سمبل استعمال ہوتا ہے جو کچھ یوں ہوتا ہے ’ ‘ ، اس کا مطلب ہے کہ اس نشان کے دونوں طرف دی گئی مقداریں آپس میں برابر ہیں۔ فرض کیجیے کہ دو نامعلوم مقداریں جنہیں ہم لا اور ما کہہ لیتے ہیں آپس میں برابر ہیں
لا ما
اب اگر دونوں اطراف لا سے ضرب دے دیا جائے تو کیا صورت ہوگی
لا X لالا ما
یا 
لا۲ لا ما
اطراف و جوانب سے ما ۲ منہا کردیا جائے
لا۲ - ما۲ = لا ما ما۲
اب داہنی جانب الجبراء کا فارمولا لگائیے اور بائیں جانب قدر ’ما ‘ مشترک لے لیجیئے
(لا  ما) ( لا + ما ) ما ( لا  ما)
نظر دوڑائیے اور دیکھئیے کہ دونوں جانب ایک قدر مشترک ہے جسے الجبراء کے فارمولے کی مدد سے ختم کیا جاسکتا ہے۔
(لا  ما) ( لا + ما ) ما ( لا  ما) 
یعنی
لا + ما ما یا دوسرے لفظوں میں
ما + ما ما ( پہلی سطر ملاحظہ کیجیے لا ما )
یعنی
۲ ما ما
یا 
۲ ۱
جی کیا فرمایا؟ کیسے ممکن ہے؟ ہم نے آپ کے سامنے اسے ممکن کردکھایا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آپ کو مزید کنفیوز ( پریشان) کرنے کی خاطر ان مقداروں کو اردو رسم الخط میں لکھ دیا ہے ۔ اب آپ اس تمام کارروائی کو انگریزی میں اور سے بدل دیجیے اور خود ہی جانچ لیجیے۔
یعنی پرکھوں کا عمل درست تھا جنھوں نے حساب کتاب تو ہندو بنئیوں کے سپرد کررکھا تھا اور اپنے ذمے گجل اور ترجموں کا کام تھا۔
یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ 
ہم ہی میں ہے نا کوئی بات، یاد حساب نہ رکھ سکے
اس کا اپائے کیا ہو۔ اس کارن بھی ہمیں یوسفی صاحب ہی کی جانب دیکھنا پڑے گا، یعنی
’’ حساب میں ۹۱ نمبر لانے کے دو گر:
پہلا تو یہ کہ بھوگ بلاس سے دور رہو۔ آج سے پرتگیّا کرلو کہ امتحان تک برہمچریہ کا پالن کرو گے۔ ہٹیلی کامنائیں یا چنچل بچار ہلّہ بول دیں تو تین دفعہ ’ اوم ! شانتی ! شانتی! شانتی!‘ کہنا، اس سے بیاکل ساگر اور بھڑکتا جوالا مُکھی بھی شانت ہوجاتا ہے۔ اوم! شانتی ! شانتی! شانتی!‘‘
خیال رہے کہ اِس بیچ کہیں شانتی کھنّا یا ٹوئینکل کھنّا نہ یاد آنے لگے۔ ’’پاس ہونا ہے تو برہمچریہ کا پالن کرنا ہوگا۔‘‘
ورنہ بصورتِ دیگر ان صاحبزادے کا سا حال ہوگا جن کا ذکر خیر ہم اپنی گجل میں کیا ہے ، جو ہم نے یارِ محفل کی ضمین میں کہی ہے۔
کاش یہ سال تو لکھ پڑھ کے گزارا ہوتا
امتحانوں میں ہمارے یہ سہارا ہوتا
کارتوس ایک میسر تو ہوا تھا لیکن
اس کو کاپی پہ ذرا ٹھیک اُتارا ہوتا
آج کِس منہ سے کچھ امید رکھیں گے ہم بھی
کبھی آموختہ ہی لب سے گزارا ہوتا
ممتحن آج یہ پرچے بڑے دشوار سہی
سہل ہوجاتے اگر تیرا سہارا ہوتا
گھر نتیجہ لیے آئے ہیں تو ابّا نکلے
کاش اُس روز کسی اور نے مارا ہوتا