Saturday, December 24, 2011

المانیہ او المانیہ۔ جرمنی کی سیر

قسط نمبر (۲)

یورپ کے عین درمیان میں واقع ، نارتھ اور بالٹک سمندروں اور سلسلہ کوہ آلپس کے درمیان موجود اس ملک کا سرکاری نام فیڈرل ریپبلک آف جرمنی ہے اور اسکا رقبہ لگ بھگ تین لاکھ ساٹھ ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ اسکے مشرق میں پولینڈ اور چیک ریپبلک واقع ہیں تو جنوب میں آسٹریا اور سوئٹزر لینڈ ہیں ، مغرب میں فرانس ، بیلجئیم لکسمبرگ اور ہالینڈ واقع ہیں اور شمال میں ڈنمارک۔ اسکا صدر مقام برلن ہے اور آبادی تقریباً اکیاسی ملین ہے۔ جس زمانے کا یہ قصہ ہے ، یہ ملک دو حصوں میں بٹا ہوا تھا، مشرقی اور مغربی جرمنی۔ مغربی جرمنی فیڈرل ریپبلک آف جرمنی کہلاتا تھا اور مشرقی جرمنی پیپلز ریپبلک آف جرمنی۔ ایک ملک آہنی پردے کی اس جانب واقع تھااور نیٹو کا حصہ تھا تو دوسرا دوسری جانب تھا اور وارسا پیکٹ میں شامل۔ ایک امریکن بلاک میں تھا تو دوسرا روسی بلاک میں۔یورپین یونین ابھی وجود میں نہیں آیا تھا اور سوویت یونین اپنے تمامتر اتحادیوں سمیت موجود تھا۔اور تو اور، شہر برلن بھی دوحصوں میں تقسیم کیا گیا تھا، مشرقی اور مغربی برلن۔ مغربی برلن جو مشرقی جرمنی کے عین درمیان میں واقع تھا، مغربی جرمنی کا شہر تھا اور مشرقی جرمنی والوں نے اس شہر کے گرد ایک دیوار کھینچ دی تھی جو دیوارِ برلن کہلاتی تھی۔اِس جغرافیے کے پس منظر میں، ہم مغربی جرمنی کے مہمان تھے۔

اگلے دن کی سرمئی صبح برفباری کے ساتھ طلوع ہوئی۔ ہم بمشکل اٹھے اور تیاری وغیرہ کرکے بس اسٹاپ پر جاکھڑے ہوئے۔بس اسٹاپ کے شیڈ میں پہنچے تو اپنے مشہورِ زمانہ اوور کوٹ سے برف کو جھٹکا ، سردی سے تمتمائی ہوئی اپنی ناک کو اپنے ہاتھ سے چھو کر محسوس کیا تو اللہ کا شکر بجالائے کہ ابھی اپنی جگہ پرہی موجود ہےاور بس کا انتظار شروع کردیا۔مسلسل برفباری کا یہ انوکھا منظر ہم نے پہلے کب دیکھا تھا، مبہوت ہوکر ہر طرف دیکھا کیے۔ سبحان تیری قدرت۔
بس آئی تو ایک انوکھا نظارہ دیکھا۔ نہ بس ڈرائیور نے بس کو اسٹاپ سے دور لے جاکر روکا، نہ لوگوں کا ہجوم اس کی طرف دوڑا بلکہ جو کچھ لوگ بشمول رنگا رنگ کپڑوں میں ملبوس طلبا و طالبات وہاں موجود تھے ایک باقاعدہ لائن بنا کر بس کے اگلے دروازے سے داخل ہونا شروع ہوئے اور ساتھ ہی ڈرائیور کو ٹکٹ کے پیسے دیکر، اس سے ٹکٹ حاصل کرتے ہوئے ، اندر داخل ہوتے رہے۔پچھلا دروازہ مسافروں کے بس سے اترنے کے لیے تھا، لہٰذا اُدھر سے کوئی بھی شخص داخل نہیں ہوا۔ بس چل پڑی۔ اتوار کی بہ نسبت زیادہ رش تھا، اس لیے ہم بھی ایک کونے میں ڈنڈا پکڑ کر کھڑے ہوگئے اور اپنے اسٹاپ کا انتظار کر نے لگے۔
گو بس میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، لیکن سفر مزیدار گزر رہا تھا۔ جہاں برفباری کا حسین منظر بصارتوں کے لیے ایک حسین تحفہ ثابت ہورہا تھا تو وہیں جرمن خواتین کی گفتگو کے آواز و انداز سماعتوں میں شیرینی گھول رہےتھے۔ہم خوش ہوئے اور خوش خوش اپنے اسٹاپ پر اترے اور پھر وہیں سے اپنے تربیتی مرکز تک گرتی ہوئی برف کے مزے لیتے ہوئے ہم نے ایک طویل واک کا آغاز کردیا۔ہر قدم ایک نئی جد و جہد تھا۔بمشکل زور لگا کر اپنا پاؤں برف میں سے نکالتے اور ایک فٹ دور اسے دوبارہ نرم سی برف میں دھنسادیتے۔برف میں چلتے چلتے، گرتے پڑتے آخر کار ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچ ہی گئے۔ استقبالیہ پر پہنچ کر اپنے نام کا اعلان کیا اورضروری کاروائیوں کے بعد اپنی کلاس میں پہنچا دئیے گئے۔ نئے دوستوں سے ملے۔ جو لوگ پچھلی مرتبہ کے تجربہ کار تھے ، فوراً کچن سے چائے اور کافی کے تھر ماس اٹھالائے جو فری تھے۔ ہم نے پہلی مرتبہ اسٹرانگ جرمن کافی نوش جان کی اور پسند کی۔استاد کے آنے سے پہلے پہلے ہم کافی پی کر سردی سے بچاؤ کی تدابیر اور اپنی کلاس کے دوستوں کے ساتھ اچھی خاصی گپ شپ کرچکے تھے۔ استاد صاحب تشریف لائے اور ایک عدد بور قسم کی تربیت کا آغاز ہوا۔ دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوا تو دوستوں کے ہمراہ کمپنی کی ایک دوسری عمارت میں پہنچ گئے ۔کینٹین میں پہنچے تو وہاں پر بھی ایک عجیب و غریب منظر دیکھا۔ کیا چھوٹا ، کیا بڑا ہر افسر و کلرک ایک ہی لائن میں کھڑےہوئےتھے۔
ایک ہی صف میں کھڑے تھے گویا محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ ہی تھا اور نہ کوئی بندہ نواز
کینٹین میں پہنچ کر حلال غذا کی تلاش شروع کی اور آخر کار تھک ہار کر سلاد، ڈبل روٹی اور مکھن قسم کی اشیا پر ہی گزارا کیا۔
شام سے پہلے پہلےہم ریشارد شغم ( رچرڈ شرم) ایک جرمن ساتھی اور ایک کینیڈین ساتھی سے گہری دوستی گانٹھ چکے تھے۔ شرم کو اپنے پروگرام کے بارے میں بتایا کہ ہم ایک عدد کموڈور ۶۴ کمپئیوٹر خریدنا چاہتے ہیں تو اس نے جی جان سے مدد کا وعدہ کرلیا۔ کینیڈین ساتھی نے بتایا کہ وہ سنٹرم کے قریب ہی ہوٹل پیئر میں قیام پذیر ہے تو روزآنہ اس کے ساتھ پیدل ہی سنٹرم تک جانے لگے۔ سنٹرم تک پہنچ کر پہلے تو کسی ریسٹورینٹ میں بیٹھ کر کافی کا ایک اور کپ نوشِ جان فرماتے اور اپنے کینیڈین ساتھی کو جامِ شراب لنڈھاتے ہوئے یعنی بئیر کا ایک بڑا گلاس اسکے حلق سے اتارتے ہوئے دیکھتے، ڈھیروں باتیں کرتے اور پھر اسے اسکے ہوٹل چھوڑتے ہوئے اپنی بس پکڑتے۔ کبھی کبھی رات ہوجانے پر میکڈانلڈ سے فش فلے اور کافی یا ہاٹ چاکلیٹ کا ایک بڑا گلاس لیتے اور اس طرح رات کے کھانے سے فارغ ہوکر ہی اپنے کمرے میں واپس پہنچتے۔ ادھر یہ بات بھی پتہ چلی کہ ہم پہلے دن سے جس بس اسٹاپ پر اترتے آرہے تھے وہ ٹریننگ سنٹر سے کافی دور تھا، اگر ہم ایک دو اسٹاپ بس کو اور برداشت کرتے تو قریبی اسٹاپ پر اتر سکتےتھے۔خیر آئیندہ کے لیے ہم نے اپنے راستے میں تبدیلی کرلی اور دو اسٹاپ کے بعد اترنے لگے۔
کینیڈین ساتھی ہی کی بدولت ایک اور یوروپین سے دوستی ہوئی جو کسی اور کلاس میں تھا اور وقفوں میں کافی پینے کے لیے ہمارے کمرے میں آجاتا تھا۔ اس کا نام اب بھی یاد ہے ، وہ سوین گنار اولسن تھا۔بلا کا باتونی۔ ہر موضوع پر بولتا اور اچھابولتا تھا۔ ادھر شرم کے ساتھ دوستی بھی اچھی نبھ رہی تھی، یعنی اس نے اپنا وعدہ پورا کردکھایا تھا۔ پہلے تو وہ ہمیں شہر کے مختلف اسٹورز پر لے گیا اور وہاں ہماری فرمائش پر کموڈور کی قیمت دریافت کی، پھر ہمیں لے کر شہر سے تقریباً باہر ایک بڑے اسٹورپر جا کر ان کے کاؤنٹر پرہمیں پیش کردیا۔ ہم نے کمپئیوٹر کی قیمت دریافت کی تو پتہ چلا کہ قیمت میں کہیں بھی فرق نہیں ہے، لہٰذا ہم نےاپنے پیارے دوست شرم کے مشورے کے ساتھ، وہیں سے اپنی زندگی کا سب سے پہلا کمپئیوٹر بمع ایک عدد فلاپی ڈرائیو کے خریدا۔ ہم نے ان دونوں چیزوں کے نام لیے اور کلرک نے قریب ہی کسی شیلف سے نکال کر ان چیزوں کو ہمارے حوالے کردیا۔ نہ چیکنگ کی دِقت اور نہ ڈبے کھولنے کی ضرورت، ہم نے قیمت ادا کی اور شرم کے ساتھ آکر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اب ایک مشکل اور تھی۔ اس کمپئیوٹر کو ہم کون مانیٹر پر دیکھیں گے؟ ہم نے شرم کو اس مشکل سے آگاہ کیا تو اس نے فوراً گاڑی موڑلی اور سنٹرم میں واقع واحد ڈیپارٹمنٹل اسٹور پہنچ کر ہمیں ایک عدد چھوٹا، چھ انچ اسکرین کا بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی بھی مول لےدیا۔ ہماری ساری مشکلیں آسان ہوچکی تھیں۔ کشاں کشاں گھر پہنچے ۔ گھر پہنچ کر ٹی وی کو ٹیون کیا اور جرمن نشریات دیکھتے ہوئے کمپئیوٹر کو اسکے ڈبوں سے نکال کر سیٹ کیا ۔ پھر کیا تھا، ہماری تو پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑھائی میں۔ رات کوباری باری، دیر تک، کبھی ٹی وی دیکھتے اور کبھی کمپئیوٹر سے کھیلتے۔ چند ایک جملوں کے علاوہ ،( مثلاً ڈانکے شون یا ڈانکے، بیٹے شون، آف ویڈے زین، اش بین آئنے ٹیکنیکار وغیرہ) جو ہم اب تک سیکھ چکے تھے، جرمن زبان گو ہماری سمجھ سے بالاتر تھی ، پھر بھی کبھی کبھی تو اتنے ’اچھے‘ اور ’دلچسپ‘ پروگرام دیکھنے کو ملتے تھے کہ طبیعت باغ باغ ہوجاتی اور ہم عش عش کر اٹھتے۔یہی لن ترانیاں تھیں اور ہم تھے۔پورا ہفتہ اسی طرح مصروف گزر گیا۔
ایک ایسےہی جمعے کی شام کا ذکر ہے، ہم ٹریننگ سنٹر کی مصوفیات سے فارغ ہوکر اپنے کینیڈین دوست کے ساتھ ایک قریبی ریستوران میں بیٹھے موسم کا لطف اٹھارہے تھے اور ساتھ ہی اسی طرح کافی کی چسکیاں لے رہے تھے، جس طرح ہمارا دوست بیئر کے مزے لے رہاتھا۔ کتنی شیریں تھی زندگی اُس پل۔ پاکستان سے باہر جاکر جمعہ کی شام کا تو لطف ہی دوبالا ہوجاتا ہے۔ ڈھائی دن کی پُر لطف چھٹی ہمارے سامنے تھی۔ چاہیں سوئیں، چاہیں اپنے نئے کمپئیوٹر پر گیم کھیلیں، چاہیں لیٹے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے۔ 
اچانک ہمارے کینیڈین دوست نے اپنی خمار آلود نگاہیں اوپر اٹھائیں اور ہم سے مخاطب ہوا۔
’’ خلیل! کیا خیال ہے؟ کیوں نہ برلن چلیں؟‘‘
’’برلن؟ ابھی؟‘‘ ہم حیران رہ گئے۔’’ گورا نشے میں ہے۔‘‘ ہم نے سوچا۔
’’ہاں۔ کیوں نہیں؟‘‘ وہ ترنگ میں آکر بولا۔
اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ دو دن کی پہاڑ جیسی چھٹی ہمارے سامنے تھی۔ہم نے فوراً حامی بھرلی۔
ہم دونوں نے جلد جلد اپنے مشروبات ختم کیے اور وہاں سے نکل کر ریلوے اسٹیشن پہنچے جو سنٹرم سے زیادہ دور نہ تھا۔ معلومات کی کھڑکی سے معلوم ہوا کہ برلن جانے والی انٹر سٹی ریل گاڑی رات بارہ بجے یہاں سے روانہ ہوگی۔ ہم نے بکنگ کروا لی اور اپنے اپنے مستقر کی طرف روانہ ہوگئے۔ رات بارہ بجے دوبارہ ایک ایک تھیلا لیے اسٹیشن پر ملے اور ٹرین کے آنے پر اطمینان کے ساتھ اس کی آرام دہ سیٹوں پر براجمان ہوگئے۔ ٹرین ساری رات کئی گھنٹے چل کر صبح سویرے برلن زو اسٹیشن پہنچےگی۔ ریل گاڑی چھکا چھک چلی اور ایرلانگن سے روانہ ہوئی اور رات کے کسی پہر سرحد پار کر گئی۔ کچھ سرحدی گارڈ ریل گاڑی پر چڑھ آئے اور لگے پاسپورٹ چیک کرنے۔ ہم دونوں نے اپنے پاسپورٹ انکے حوالے کیے تو انھوں نے کاغذی کارروائی کے بعد ایک علیحدہ کاغذ پر مشرقی جرمنی کا ٹرانزٹ ویزا ہمارے حوالے کر دیا اور یوں ہم مغربی جرمنی سے مشرقی جرمنی میں داخل ہوگئے۔ 
ہم نے آرام دہ برتھ پر لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں اور ایک دوسری دنیا میں پہنچ گئے۔ صبح سویرے تازہ دم ہوکر اٹھے تو اجالا پھیل چکا تھا اور ریل گاڑی مشرقی جرمنی کےمیدانوں، کھیتوں اور کھلیا نوں ، بستیوں اور ویرانوں سے دوڑتی ہوئی گزرتی جارہی تھی۔ پہلی چیز جو ہم نے محسوس کی وہ مغربی جرمنی اور مشرقی جرمنی کے ماحول کا واضح فرق تھا۔ جہاں مغربی جرمنی کے ماحول سے امارت ٹپکتی تھی وہیں مشرقی جرمنی کا ماحول نسبتاً غربت کی عکاسی کرتا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہم مشرقی جرمنی کو عبور کرکے مغربی برلن میں داخل ہوگئے اورصبح سات بجے کے قریب برلن زو نامی ریلوے اسٹیشن پر اتر گئے۔
ریلوے اسٹیشن سے خراماں خراماں چلتے ہوئے باہر نکلے تو برلن کی خوبصورت صبح اپنے حسین جلوے بکھیرے ہماری منتظر تھی۔ ہم نے سڑک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ٹہلتے ہوئے ایک چکر لگا یا اور برلن کا مشہور ناشتہ کرنے کے لیے ریستوران کے باہر لگی ہوئی ایک میز پر براجمان ہوگئے۔ مزے لے لے کر ناشتہ کیا اور اس دوران موسم اور دیگر نظاروں کا خوب لطف اٹھایا۔ ناشتے سےفارغ ہوئے تو دیکھا کہ قریب ہی کئی ٹووربسیں مسافروں کے انتظار میں کھڑی تھیں۔ ہم نے بھی مشرقی برلن کے ٹوور کا بس ٹکٹ خرید لیا۔ یہ سفرچار گھنٹے دورانیئے کا تھا۔بس کچھ دیر مسافروں کے انتظار کے بعد ہمیں لے کر چلی تو آن کی آن میں دیوار برلن کی مشہور گزرگاہ چیک پوائنٹ چارلی پہنچ گئی۔ یہاں ہم قارئین کو اس بدنامِ زمانہ دیوار کی تاریخ سے آگاہ کرتے چلیں۔
جنگِ عظیم دوم کے اختتام پر شکست خوردہ جرمنی کو اتحادیوں کےچار فاتح ملکوں یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس نےپوٹسڈیم ایگریمنٹ کے ذریعے چار حصوں میں بانٹ لیا۔ برلن جو جرمنی کا دارالخلافہ تھا، اسے بھی اسی طرح چار سیکٹرز یعنی حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ اس بندر بانٹ کے دوسال کے اندر اندر ہی اتحادی قوتوں کا فاتح اتحاد پارہ پارہ ہوگیا اور روس اپنے حصے کو لیکر علیحدہ ہوگیا ۔ اِدھر امریکہ برطانیہ فرانس اور قریبی ہالینڈ، بیلجئیم اور لکسمبرگ نے مارشل پلان کے ذریعے باقی تین حصوں کو ملا کر مغربی جرمنی کی تشکیل کی راہ ہموار کردی۔مغربی برلن بھی اسی منصوبے کے تحت مغربی جرمنی کی حدود میں آگیا۔ 
مشرقی جرمنی کے تسلط سے آزادی پانے کے خواہش مند سینکڑوں باشندوں نے موقع غنیمت جانا اور اور سرحد پار کرکے مغربی برلن پہنچنا شروع ہوگئے، جہاں سے وہ آزاد ی کے ساتھ مغربی جرمنی جاسکتے تھے۔ 
اس صورتحال کے پیشِ نظر ۱۹۴۸ میں روسی ڈکٹیٹر جوزف اسٹالن نے مغربی برلن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور اسے چاروں طرف سے گھیر کر ہر قسم کی آمد و رفت اور سپلائیز کو روک دیا گیا۔مغربی طاقتوں نے اس مشکل صورتحال سے اہلِ شہر کو نکالنے اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے لیے برلن ائر لفٹ کا پروگرام بنایا اور اس طرح تمام نجی ائر لائینز کو اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔ برلن ائر لفٹ نے اس بائیکاٹ کو بے معنی بنادیا تو ۱۹۴۹ میں یہ بائیکاٹ ختم کردیا گیا۔ ۱۳ اگست ۱۹۶۱ کو مشرقی جرمنی نےدیوار برلن کی تعمیر شروع کی اور اس طرح مغربی برلن کو گھیر کر ہر قسم کی آمد و رفت کو ناممکن بنادیا۔
بالآخر ۱۹۸۹ میں جرمنی متحد ہوا ، اور اس دیوار کو گرادیا گیا لیکن اس عرصے میں تقریباً ۵۰۰۰ لوگوں نے دیوار پھلانگنے کی کوشش کی جن میں سے تقریباً دوسو افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۱۹۸۶ میں جب ہم مغربی جرمنی پہنچے، تو جرمنی دوحصوں میں منقسم تھا اور دیوارِ برلن اپنی تمام تر حشر سامانیوں سمیت موجود تھی، جسے ہم چار گھنٹے کے لیے عبور کیا چاہتے تھے۔
باقی آئیندہ

Monday, December 19, 2011

المانیہ او المانیہ: جرمنی کی سیر

المانیہ او المانیہ: جرمنی کی سیر
محمد خلیل الرحمٰن
قسط نمبر ایک

ہمیں کالے پانی کی سزا ہوگئی۔ یہ وہی سزا ہے جسے منچلے پردیس کاٹنا کہتے ہیں۔ سنتے ہیں کہ قسمت والوں ہی کے مقدر میں یہ سزا ہوتی ہے۔ عرصہ ایک سال ہم نے بڑی کٹھنائیاں برداشت کیں اور یہ وقت کاٹا۔ پھر یوں ہوا کہ ہمارے لیے اس علاقے ہی کو جنت نظیر بنادیا گیا۔پھر تو پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑھائی میں۔ پھر ہمیں یہ مژدہ جاں فزاء سننے کو ملا کہ ہمیں جرمنی میں پانچ ہفتے کی تربیت یا جبری مشقت کے لیے چن لیا گیا ہے۔ ہم خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ اپنا سفری بیگ اٹھایا اور کراچی کے لیے روانہ ہوگئے۔ گھر پہنچ کر گھر والوں کو بھی یہ خوشخبری سنائی۔ وہ بھی بہت خوش ہوئے اور جواب مضمون کے طور پر ہمیں ایک اور خوشخبری سنادی۔
’’ تمہارے چھوٹے بھائی کا تبادلہ بھی اسلام آباد کردیا گیا ہے اور اب وہ بھی تمہارے ساتھ ہی رہے گا۔‘‘
ابھی یہ بم ہمارے سر پر اچھی طرح پھٹنے بھی نہیں پایا تھا کہ بھائی نے گرینیڈ سے ایک اور حملہ کردیا۔
’’ بھائی! یہ بتائو کہ کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے اسلام آباد ائر پورٹ پر کسٹم پہلے ہوتا ہے یا پھر امیگریشن؟‘‘
ہم نے خون کے گھونٹ پی کر اس حملے کو بھی برداشت کیا اور سفر کی تیاریوں میں لگ گئے۔ اگلے روز کمپنی کے صدر دفتر پہنچے تو پرِ پروانہ اور دیگر ضروری دستاویزات کے ساتھ ایک عدد لمبی چوڑی فہرستِ اشیائے ضروریہ ہمارے حوالے کی گئی جن کا بہم پہنچایا جانا ہماری ہی صحت کے لیے بہت ضروری تھا۔ 
بڑے بھائی ( مر حوم ) کو ساتھ لیا اور بھاگے بھاگے لنڈا بازار پہنچے اور وہیں سے یہ تمام اشیاء بصد شوق خریدیں جن میں ایک عدد گرم سوئٹر، گرم واٹر پرف دستانے ، ایک جوڑی لمبے جوتے، اندر پہننے کے لیے گرم پائجامےاور ایک عدد لانگ اوور کوٹ شامل تھے۔
اس اوور کوٹ کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔جب ہم فخر سے اسے پہن کر باہر نکلتے تو گورے اور گوریاں ہمیں حیرت سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے تھے۔ بقول جناب مختار مسعود:۔
’’ چلتے چلتے کسی نے نگاہِ غلط انداز ڈالی اور کسی نے نظر انداز کیا۔ نظر بھر کر دیکھنے والے بھی گو دوچار سہی، اس بھیڑ میں شامل تھے۔( برف کدہ۔ سفر نصیب)
واپسی پر اندازہ ہوا کہ ہم نےغلطی سے زنانہ اوور کوٹ مول لے لیا تھا۔ جس کے بٹن الٹی جانب تھے۔ ہم نے چونکہ زرِ کثیر صرف کرکے یہ قیمتی اوور کوٹ مول لیا تھا، لہٰذا اب اس کا استعمال ترک نہیں کرسکتے تھے۔ ہم نے اسے عرصہ کئی سال تک یورپ کے اکثر سفروں میں استعمال کیا یہاں تک کہ بیگم نے اسے سیلاب فنڈ میں دیدینے کا اعلان کردیا اور ہم اس قیمتی اوور کوٹ سے جبراً محروم کردئیے گئے۔
ہماری پہلی منزل فرینکفرٹ ائر پورٹ تھی، جہاں سے ہمیں جہاز تبدیل کرکے نورمبرگ کی فلائٹ لینی تھی۔ ہمیں تجربہ کار دوستوں نے اس ائر پورٹ سے متعلق پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ یہ ائر پورٹ بہت بڑا ہے اور کئی طویل راستے اس میں طے کرنے پڑیں گے لہٰذا دیکھ بھال کر چلنا۔مزید یہ کہ اس ائر پورٹ پر تمہیں چہرے جتنی چوڑائی والی بندکھڑکیاں بھی نظر آئیں گی ۔ یہ وہاں کا مشہور تانک جھانک شو ( پیپ شو) ہے۔ سکہ ڈالتے ہی شیشے کی کھڑکی پر سے پردا چند منٹ کے لیے سرک جائے گا۔ مزے سے نظارہ کرو۔ اور دیکھو‘‘ انھوں نے تاکیداً کہا۔’’ اس چند منٹ کے عرصے کو پلکیں جھپکانے میں نہ گزار دینا۔غور سے دیکھنا اور ایک ایک تفصیل کا دھیان رکھنا۔‘‘ گویا ہمیں واپسی پر اس تانک جھانک ہی کا تو تجزیہ لکھ کر کمپنی میں پیش کرنا تھا۔
فرینکفرٹ ائر پورٹ ٹرمنل کی عمارت واقعتاً ہمارے قیاس سے بھی بڑی تھی ، لہٰذا ہم ھیبت کے مارے بھاگتےہی چلے گئے اور نورمبرگ کی فلائٹ کی روانگی کے ہال پر جاکر ہی دم لیا اور وہاں پر اطمینان کے ساتھ بیٹھ کر گورے گورے چہروں والی حسینائوں کے سردی سے تمتمائے حسین چہروں کو تکتے رہے۔ ہمارے لیے یہی تانک جھانک بہت تھی۔
نورمبرگ ائر پورٹ سے ٹیکسی لی اور ڈرائیور کو چھپا ہو اکاغذ دکایا جس پر ہماری منزل کا پتا لکھا ہوا تھا۔ اس نے کچھ آئیں بائیں شائیں کی اور ایک نقشہ نکال کر اس پر جھک گیا۔ پھر اس نے وائر لیس ریڈیو پر کسی سے پشتو یا اس قبیل کی کچھ آوازیں نکال کر کچھ گپ شپ کی ، دو منٹ بعد اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ہمیں منزل مقصود تک پہنچا کر ہی دم لیا۔
ارلانگن ہمارا مستقر دراصل ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس کا اپنا کوئی ائر پورٹ نہیں ہے۔ نورمبرگ ائر پورٹ جو تاریخی شہر نورمبرگ اور ارلانگن کے درمیان واقع ہے، دو نوں شہروں کے لیے ائر پورٹ کاکام دیتا ہے۔ قارئین کو علم ہوگا کہ نورمبرگ جرمنی کے جنوبی صوبے بویریا کا ایک تاریخی شہر ہے ۔ ہٹلر کے زمانے میں اس شہر کے قلعے میں اس نے گسٹاپو کا عقوبت خانہ بھی بنوایا تھا۔
اس صوبے کا سب سے بڑا اور مشہور شہر میونخ ہے جسے جرمن میونچن کہتے ہیں۔
گھر پہنچے تو صرف ایک بزرگ جوڑ ہی گھر پر ملا۔ دونوں ہمیں دیکھ کر نہال ہوگئے اور مسلسل جرمن زبان میں استقبالیہ کلمات کہتے رہے جو ہمارے لیے آواز کی کرختگی کے لحاظ سے پشتو ہی تھے۔ انھوں نے گھر کے پچھواڑے ہمیں ایک کمرے تک پہنچا دیا جس کا دروازہ اور ایک کھڑکی صحن میں کھلتے تھے۔ کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی ایک جانب ایک گوشے میںچھوٹے سے کچن کا بندو بست تھا اور دوسری جانب ایک باتھ روم تھا۔
ہم بھی ان بڑے میاں اور بڑی بی سے مل کر بہت خوش ہوئےاور اگلے پانچ ہفتوں تک مہ وشوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہے، فارسی کا یہ شعر پڑھتے رہے اور جرمن زبان کا مزہ اپنے منہ میں محسوس کرتے رہے۔
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودی اگر بودی زبانِ خوش دہانِ من
اب ہم نے کھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ آرام اور حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہونے کے بعد باہر نکلنے کا ارادہ کیا تاکہ ابھی سے بس میں جاکر تربیتی مرکز دیکھ آئیں اور اگلے روز وقتِ مقررہ پر تربیت گاہ پہنچ سکیں۔
باہر سردی مزاج پوچھ رہی تھی ۔ ہم نے دستانے چڑھائے، اوور کوٹ کو اچھی طرح اپنے جسم کے ارد گرد لپیٹ لیا اور بس اسٹاپ پرآکر کھڑے ہوئے اور اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تاکہ اس جگہ کو پہچان کر واپسی کا راستہ متعین کر سکیں۔ پہلے تو ارد گرد کے ماحول کی تفصیلات کو ذہن میں بٹھایا، پھر اس بس اسٹاپ اور اس محلے کا نام معلوم کرنے کی دھن ہمارے دل میں سماگئی۔ یہ ایک چھوٹا سا بس اسٹینڈ تھاجہاں پر بس کا انتظار کرنے کے لیے ایک لکڑی کی بنچ لگائی گئی تھی ۔اسی طرح ایک کونے میں دوتین نوٹس بھی نظر آئے، دیکھنے پر پتہ چلا کہ یہاں پر آنے والی بسوں کے روٹس اور اوقات ہیں۔ ساتھ ہی اوپر کی جانب ایک چھوٹے سے بورڈ پر ایک نام لکھا ہوا تھاجسے ہم نے ذہن میں بٹھا لیا۔
اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک گول مٹول، خوبصورت سی ، مائل بہ فربہی، پیاری سے حسینہ ہمارے برابر آکر کھڑی ہوگئی اور سامنے لگے ہوئے نوٹس کو غور سے پڑھنے لگی۔
ہم نے سوچا کہ اب ہمیں اس مظہرِ حسن کے ساتھ بات چیت کا آغاز کردینا چاہیے، تاکہ اپنی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ کرسکیں۔ یہ سوچتے ہی پہلے تو پانچ منٹ تک اپنے حواس مجتمع کرتے رہے، پھر ہمت کرکے کھنکارے اور بھررائی ہوئی آواز میں یوں گویا ہوئے۔
’’ معاف کیجیے گا؟‘‘
اللہ جانے یہ سردی کا اثر تھا یا رعبِ حسن کا دبدبہ کہ ہمیں اپنی کپکپاتی ہوئی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی معلوم ہوئی۔
’’ جی فرمایئے؟‘‘ وہ حسینہ فوراً ہماری جانب متوجہ ہوگئی اور اپنی کوئل جیسی آواز میں انگریزی میں گنگنائی۔
’’ کیا اس جگہ کا نام نیو مالے ہے؟‘‘ ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’جی؟‘‘ اس نے غور سے سننے کی کوشش کی اور پھر ایک خوبصورت اندازِ پریشانی میں کندھے اچکائے۔ جرمنوں کا یوں کندھے اچکانے کا یہ انداز بھی ہمیں بہت پیارا لگا۔ جرمنوں کو جب بھی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی، وہ اسی طرح اپنے کندھے اچکا دیتے ہیں۔
ہم نے کچھ دیر سوچا، اس صورتحال کا ادراک کیا اور پھر فوراً اپنی جیب سے ٹشو پیپر نکال کر اس پر اس جگہ کا نام لکھ دیا۔ جیسے اُس بورڈ پر لکھا ہوا تھا۔
’’ اوہ! نائے میوہلے۔ نائے میوہلے۔‘‘ وہ بیچاری کھل اٹھی۔
پھر ہم نے اسکی آواز کی نغمگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنا تعارف کروایا اور اسے بتایا کہ ہم ابھی ابھی اس کے ملک میں وارد ہوئے ہیں اور یہ ہمارا اپنے ملک سے باہر کوئی پہلا سفر ہے۔
’’ میرا نام فاطمہ ہے۔ فاطمہ کیتی سی اوغلو!‘‘ اس نے بتایا۔
وہ ایک ترک مسلمان لڑکی تھی اور اپنی پیدائش سے ہی یہاں رہتی تھی۔ یعنی پیدایشی طور پر جرمن تھی۔ پھر کیا تھا۔ ہم نے اس کے ساتھ گپ شپ شروع کردی۔ اسے اس جگہ کا پتہ بتلایا جہاں ہمیں جانا تھا۔ ورنافان سیمنز اسٹراسے کا نام سنتے ہی وہ دوبارہ کھل اٹھی اور اس نے بتایا کہ وہ بھی اسی جانب جائے گی، لہٰذا ہم دونوں کی بس ایک ہی ہے۔
بس آئی تو ہم دونوں اس میں سوار ہوگئے اور ایک ہی سیٹ پر بیٹھ کر ایک دوسرے سے متعلق معلومات بہم پہنچاتے رہے۔ سنٹرم پہنچ کر وہ بس سے اتر گئی اور ہمیں بتلا دیا ہمیں اب سے کوئی تین چار اسٹاپ بعد میں ورنافان سیمنز اسڑاسے پر اترنا ہے اور بس ڈرائیور کو بھی اس بارے میں واضح ہدایات دیتی ہوئی وہ ہم سے رخصت ہوئی۔ ہم نے بھی اس کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔
ایک جگہ بس ڈرائیور نے ہمیں تار دیا جہاں سے ورنافان سیمنز اسٹراسے شروع ہورہی تھی۔ سڑک کے گرد ڈھیروں برف پڑی ہوئی تھی۔ ہم نے اس برف میں چلنا شروع کردیا۔ کافی دور تک اور دوایک چوراہوں کو عبور کرنے کے بعد ہم اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔ ہمارا ٹریننگ سنٹر ایک چھوٹی سی عمارت تھی۔ اس عمارت کو اچھی طرح دیکھنے کے بعد ہم واپس مڑے۔ راستے میں سنٹرم پر اترے میکڈانلڈ سے فش فلے اور گرم گرم کافی کا لنچ کیا اور گھر واپس آگئے۔
شام تک بوڑھے میزبانوں کے بیٹی اور داماد بھی آگئےجو ہفتے کا اختتامیہ ( ویک اینڈ) گزارنے کے لیے کہیں گئے ہوئے تھے۔ دونوں انگریزی جانتے تھے اور ہم سے بہت گرم جوشی کس ساتھ ملے۔ ان دونوں سے مل کر ہم نے کافی معلومات بہم پہنچائیں۔
دراصل جرمن بزرگ حضرات انگریزی بالکل نہیں جانتے، جبکہ نوجوان نسل انگریزی سیکھتی ہے۔ جہاں تک بولنے کا معاملہ ہے، اکثر نوجوان واجبی ہی بولنا جانتے ہیں، جبکہ کچھ بہت اچھی طرح بول سکتے ہیں۔ انگریزی بولنے کا رواج بالکل نہیں ہے۔ صرف غیر ملکیوں کے ساتھ انگریزی بولی جاتی ہے۔ چونکہ مشکل سے بولتے ہیں، لہٰذا ہر لفظ صاف صاف ادا کرتے ہیں اور ہمارے لیے ان کی کہی 
ہوئی بات کا سمجھنا قدرے آسان ہوجاتا ہے۔
جرمن لوگوں کو بات کرتے ہوئے سنیں تو وہ مزاج کے بہت اکھڑ لگتے ہیں۔ لیکن ان سے بات کیجیے تو وہ بہت خوش مزاج، مہربان اور مدد کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ہمارے ساتھ اکثر یہ ہوا کہ جب بھی ہم کسی لائن میں لگ کر کائونٹر تک پہنچے اور کائونٹر والی خاتون کے ساتھ بات چیت شروع کی اور مشکل میں پھنسے، پیچھے کوئی لڑکی فوراً نکل کر آئی اور ہماری مشکل آسان کردی۔ اسی طرح جہاں پر کسی کو روک کر کوئی سوال پوچھا، انھوں نے بہت خوش مزاجی کے ساتھ جواب دیا اور صحیح رہنمائی کی۔
سفر کی تھکن بہت زیادہ تھی اس لیے ہم سرِ شام ہی سو گئے اور اگلے دن صبح کی خبر لائے۔