Wednesday, October 30, 2019

صفیہ اختر کا ایک خط


پیارے اختر!،

کل ہی تُم کو خط لکھا ہے،
دل تمہاری خیریت میں ہی لگا ہے،
نظم پڑھ لی انجمن میں؟،
یہ غزل جو تُم نے لکھی ہےتمہارے دور سے دو سو برس پہلے کے شاعر کا تغزل لگ رہا ہے،
بیٹھے بیٹھے یہ تمہیں کیا سوجھتی ہے؟،
پھر بھی اس کے بعض شعروں کا ( کہوں گی) مجھکو جیسے چبھ گئے ہیں،
ایسا لگتا ہے کہ میرے ہی کہے کو تُم نے شعروں میں پرویا،

آج کل تو گھر بھرا ہے،
یوں نثار اور جاروے سے آیا لڑکا اور شمیم اپنے سبھی باہر کے کمرے کو سجا رکھے ہوئے ہیں،
اور اِدھر منی علیگڑھ جانے پر اصرار کرتی جارہی ہے،
چاہتی ہوں جس طرح ہو بس وہ بے فکری سے پڑھ لے،
دیکھو ( کیا ہو)۔۔۔،

سلسلہ بچوں کی بیماری کا چلتا ہی چلا جائے ہے اب تو!،
کیا مری یہ زندگی ساری یونہی ناکام سی گزرے گی اختر!
خدمتیں میری تمہارے واسطے ہوں گی کبھی یا ،
دور ہی سے میں تمہیں پوجا کروں گی،
دور ہی سے پاس آنے کے اشارے تُم یونہی کرتے رہو گے
آج پانی یوں برستا جارہا ہے جیسے برسے گا نہ پھر سے اب کبھی بھی،
آگ برہا کی تو ایسے میں بھڑک اُٹھتی ہے میرے دوست( پیارے) 

صفو اختر

No comments:

Post a Comment