Monday, May 30, 2011

جیون میں ایک بار آنا سنگاپور۔قسط نمبر ۔۴


ایک بار دیکھا ہے ،  دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے
ہم سنگاپور کیا گئے ،  ہماری دیکھا دیکھی رجب علی بیگ سرور صاحب بھی ہمارے پیچھے سنگاپور ہولیے اور اس کا سارا حال اپنی کتاب فسانہ عجائب میں  لکھنئو اور  سرزمینِ ختن کے خیالی شہر، فسحت آباد کے نام سے لکھ مارا۔ لکھتے ہیں:۔
’’ عجب شہرِ گلزار ہے، ہر گلی کوچہ دلچسپ باغ و بہار ہے۔ ہر شخص اپنے طور پر باوضع قطع دار ہے۔ دورویہ بازار کس انداز کا ہے ۔ ہر دکان میں سرمایہ ناز و نیاز کا ہے۔ ہر چند ہر محلے میں  جہاں کا ساز و سامان مہیا ہے پر ( ڈائی نے سٹی ہوٹل)  سے ( ویسما ایٹریا ، لکی پلازہ)  اور (سنگاپورہ  پلازہ )  تک،  کہ صراطِ مستقیم ہے ،  ( اور آرچرڈ روڈ) کہلاتی ہے کیا جلسہ ہے۔  ‘‘
آگے لکھتے ہیں :۔
’’ باشندے یہاں کے ذکی، فہیم، عقل کی تیز اگر دیدہ انصاف اور نظرِ غور سے اس شہر کو دیکھے تو جہان کے دید کی حسرت نہ رہے۔ آنکھ بند کرے(شعر،  سرور صاحب سے معذرت کے ساتھ)
سنا!    رضواں بھی جس کا خوشہ چیں ہے
وہ (سنگا  پور   ہی)  کی سر زمیں   ہے
آگے ذرا برسات کا حال سنئیے:۔
’’برسات کا اگر موسم ہے، شہر کا یہ عالم ہے، ادھر مینہ برسا، پانی جابجا بہہ گیا، گلی کوچہ صاف رہ گیا، ساون بھادوں میں زردوزی جوتا پہن کر پھرے ، کیچڑ تو کیا مٹی  نہ بھرے۔ فصل بہار کی صنعت،   پروردگار کی قدرت،  رضوان جن کا شائق،  دیکھنے کے لائق۔ روز عیش باغ میں تماشے کا میلہ، ہر وقت چین کا جلسہ‘‘ (فسانہ عجائب از رجب علی بیگ سرور)
بھائی ! ہم باز آئے اپنی منظر کشی سے،  آئیندہ جب کبھی سنگاپور ی جلوہ حُسن کے متعلق لکھنا ہو تو کہہ دیں گے،  دیکھئے فسانہ عجائب،  صفحہ فلاں۔
مزید برآں کچھ، اسی قسم کا ظلم ہمارے ساتھ جناب قمر علی عباسی صاحب نے بھی روا  رکھا۔ انھوں نے تو ہماری دیکھا دیکھی سنگاپور کا سفر نامہ تک لکھ ڈالا۔ایسا معلوم ہوتا ہے اِن دونوں شخصیات کو علم ہوچکا تھا کہ ہم سنگاپور کا ایک عجائب روزگار سفر نامہ لکھنے والے ہیں۔
ہائے سنگاپور، وائے سنگاپور
بھاڑ  میں   جائے  سنگاپور
 سنگاپور جو سرزمینِ ماوراء الہند یعنی شرق الہند میں ملائشیاء کے جنوب میں ایک جزیرہ ہے،  ۱  ڈگری ۲۰ منٹ  شمال طول البلد اور ۱۰۳ ڈگری ۵۰ منٹ عرض البلد مشرق میں واقع ہے اور خط استوا سے کوئی ۱۳۷ کلو میٹر کے فاصلے پر آبنائے ملاکا کے دہانے پر ہونے کی وجہ سے مشرق و مغرب کے درمیان ایک اہم بندرگاہ ہے۔ اس کا نام سنگاپور کیسے پڑا ، اس کے بارے میں بھی ایک لوک داستان بہت مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ اس علاقے کے ایک شہزادے کا دل ایک جل پری پر آگیا اور اس نے اس جل پری سے شادی رچالی اور ہنسی خوشی رہنے لگا۔  اس کے تین بیٹے ہوئے جو جوانمردی اور بہادری میں اپنی مثال آپ تھے۔ منجھلے بیٹے نیلا   اُتّم نے ایک دن سمندر پار ایک جزیرے کو دیکھا تو اس کی جستجو میں ایک بحری جہاز لے کر نکلا۔ سمندر میں طوفان آگیا اور اس کا جہاز ڈوبنے لگا ۔ شہزادے نے بڑی مشکل سے جان بچائی اور کنارے پہنچا۔ یہاں پہنچتے ہی اس نے ایک عجیب جانور دیکھا جودرحقیقت ایک شیر تھا۔ اس نےجزیرے کو اپنی مملکت میں شامل کیا اور اس  پہلےنظارے کی یاد میں اس جزیرے کا نام سنگا پورا یعنی شیر کا شہر رکھ دیا۔  اہلِ سنگاپور آج بھی اس شہزادے کو نہیں بھولے اور اس کی یاد میں  مرلائن کو سنگاپور کا قومی نشان قرار دیا جسکا سر شیر کا اور دھڑ اس جل پری کے بیٹے کی  یاد میں مچھلی کا ہے۔
یہی کچھ وہ اسمال ٹاک یعنی گپ شپ تھی جسے روا رکھتے ہوئے ہم نے اس شام بحری بجرے پر قدم رنجا فرمایا اور چار گھنٹے کے اس حسین و رنگین سفر میں جاری رکھا جس کی منزل واپس سنگاپور ہاربر تھی۔ چار گھنٹے کا یہ کروز جس میں ایک عدد شاندار قسم کا ڈنر یعنی طعِام شبینہ  بھی شامل تھا، ہماری کمپنی کی جانب سے ہم مہمانانِ گرامی قدر کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ ہم گنتی کے جوچند مسلمان اس میں شامل تھے ،ہمارے لیے علیحدہ حلال کھانے کا انتظام تھا۔  بحری بجرہ بین الاقوامی مہمانوں یعنی سیاحوں سے بھرا ہوا تھا ،  لہٰذا ہم سمندر اور اسکے قدرتی جزیروں کے خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ ،  ابنِ صفی کے قول کے مطابق انسانی جزیروں کی سیر سے بھی بدرجہ اتم لطف اندوز ہورہے تھے ۔
’’ اور کیا جناب! ۔۔۔ اینٹوں اور پتھروں کے ڈھیر میں کیا رکھا ہے۔ خواہ وہ پہلی صدی عیسوی ہی سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو۔ یہ جھیل اور اس کے ساحل بھی لاکھوں سال پرانے ہیں۔ میں تو آپ کو وہ نایاب جزیرے دکھاؤں گا ، جو آج ہیں کل نہ ہوں گے یا اگر ہوں گے بھی تو اس قابل نہ رہ جائیں گے کہ ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا کیا جاسکے!‘‘ ( پوائینٹ نمبر بارہ۔ عمران سیریز۔ از ابنِ صفی)
۱۸۱۹ ء میں سر اسٹیمفورڈ  رئفلز یہاں پہنچے تو اس وقت جزیرے کی آبادی صرف چند نفوس پر مشتمل تھی ۔سر اسٹیمفورڈ ریفلز کے جزیرے پر قدم رکھتے ہی یہ شہر سلطان آف جوہر بھارو کی عملداری میں ہونے کے باوجود  ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی منڈی کے طور پر جانا گیا۔ چاروں طرف سے لوگ اس کی جانب امڈ پڑے اور آج ( ۱۹۸۵ء  ) اس کی آبادی  پچیس لاکھ ہے۔
ہم نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا۔ ٹوور گائڈ ہمیں اپنے پبلک ایڈریس سسٹم پر ارد گرد پھیلے ہوئے جزیروں کا جغرافیہ اور سنگاپور کی تاریخ سے آگاہی دلوا رہا تھا۔تاریخ ، جغرافیہ اور معاشرتی علوم  میں ہم ویسے ہی کچے اور کورے رہے ہیں اس لیے ہم نے اس کی ان خرافات کو ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے اڑا دیا۔  ان جزیروں کا حال ہم گائڈ کتابوں میں پڑھ ہی لیں گے۔ یہ وقت تو ان نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا تھا جو اس سمے ہمارے چاروں اُور پھیلے ہوئے تھے۔ سبحان تیری قدرت۔ ہم نے اپنی یادوں کی پٹاری کھولی تو اس میں اس شام کی یاد  ان الفاظ کے ساتھ محفوظ تھی۔’’سنگاپور کی ایک شام جو بہتر انداز میں بسر ہوئی۔‘‘
اگلے دن ہمارے سب ہم جماعتوں نے استاد صاحب کے ساتھ ملکر تفریح کرنے کا پروگرام بنایا اور کلاس ختم ہوتے ہی دو ٹیکسیاں پکڑ کر سیدھے آرچرڈ روڈ پہنچ گئے۔ آرچرڈ روڈ سنگاپور کا سب سے بڑا خریداری کا علاقہ ہے۔ فرحت اللہ بیگ صاحب کی لکھی ہوئی تعریف ہم پہلے ہی پیش کرچکے ہیں۔ سمجھ لیجے کہ یہ بازار سنگاپور کا طارق روڈ یا لبرٹی ہے۔اہالیان ِکراچی اور  لاہور سمجھ گئے ہوں گے، دوسرے علاقوں کے مکین اپنے علاقائی ماحول کے مطابق کچھ اور تصور کرلیں ۔ چونکہ اس پہلے دن ہم نے ڈائی نے سٹی ہوٹل کے قریب ٹیکسی سے اتر کر پیدل آوارہ گردی کا آغاز کیا تھا، لہٰذا اس کے بعد ہمارے لیے آرچرڈ روڈ اسی نکتے سے شروع ہوتی تھی۔ پیدل ٹہلتے ہوئے چلے تو راستے میں آنے والے کئی شاپنگ سنٹر دیکھ ڈالے۔ ان دنوں لکی پلازا کا بڑا چرچا تھا ،   لہٰذا وہاں پہنچے اور زیادہ توجہ کے ساتھ دکانوں کا معائنہ شروع کیا۔ اکٹھے آٹھ لوگ کسی بھی دکان میں گھستے تو دکاندار سٹپٹا جاتے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ کس کی طرف توجہ کریں اور کس کی نگرانی کریں۔ ایک دکاندار تو اس قدر گھبرایا کہ ہر ایک کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگا۔ جب کافی دیر تک ادھر ادھر اشیاء کا بغور معاینہ کرنے کے باوجود بھی ہم میں سے کسی نے کسی شے کو خریدنے کا عندیا نہ دیا تو وہ  کچھ مشتعل سا نظر آنے لگا۔ ہم چونکہ اپنی کالی رنگت کی بناء پر ویسے ہی سب کی توجہ کا مرکز تھے، اس کے غصے کا محور بھی بن گئے اور اس نے ہمیں دیکھ کر ایک نعرہ مستانہ بلند کیا’’ ہے یو؟‘‘ یعنی’’ ارے تم! کیا چاہیے تمہیں؟‘‘ ہم غریبِ شہر کیاکہتے، ٹُک اسے دیکھا کیے،  لیکن گورے استاد نے دکاندار کو تسلی دی کہ ہم سب اکٹھے ہیں اور سب ہی غیر ملکی ہیں۔ اس بات پر اسے کچھ تسلی ہوئی لیکن  پھر جب یہ دیکھا کہ سب ہی بناء خریداری کیےدکان سے باہر جارہے ہیں تو اس کاموڈ پھر بگڑ گیا۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب ہم نے کسی سنگاپوری شہری کو اس طرح خراب موڈ میں دیکھا، ورنہ ہمیشہ سب ہی ہمیں خوش اخلاقی سے ملے ۔
جس زمانے کا یہ قصہ ہے اس دور میں سنگاپور میں بھاؤ تاؤ کرنے کا بہت زیادہ رواج تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق،  اگر آپ دکاندار کی بتائی ہوئی قیمت پر بھروسا کرکے خریداری کر لیتے،  تو گویا آپ لٹ چکے ہوتے۔ فارمولا یہ بتایا گیا کہ دکاندار جتنی قیمت بتائے ،  آپ اسکی آدھی قیمت سے بحث کا آٖغاز کریں۔ پھر جہاں پر بات بن جائے، وہیں بات ختم کرکے پیسے ادا کردیں۔ بھاؤ تاؤ کا طریقہ بھی مخصوص تھا۔  دکاندار جس قیمت پر آپ سے بھاؤ تاؤ شروع کرنا چاہتا، وہی قیمت کیلکولیٹر پر لکھ کر آپ کے سامنے کردیتا۔ آپ اپنی من پسند قیمت اسی کیلکولیٹر پر لکھ کر اس کے سامنے رکھ دیتے۔ اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا۔ جو قیمت آپ کے نزدیک مناسب ہوتی اس پر پہنچ کر آپ اپنے بٹوے سے پیسے نکالتے جنھیں دیکھتے ہی دکاندار رام ہوجاتا اور آپ سے پیسے پکڑ کر خریدی ہوئی شے آپ کے حوالے کردیتا۔  آرچرڈ روڈ اور خاص طور پر لکی پلازا اس قسم کی خریداری کے لیے مشہور تھے۔ سرنگون روڈ پر مصطفےٰ سنٹر میں البتہ ہر شے پر قیمت لکھی ہوئی تھی اور دھوکے کے امکانات کم تھے۔ لہٰذا ہم نے اصولی طور پر ، طے کر رکھا تھا کہ اپنی تمام خریداری مصطفےٰ سنٹر ہی سے کی جائے گی علاوہ معدودے چند اشیاء کے، جن میں کمپیوٹر سرِ فہرست تھا۔ (ایک ہفتے بعد  فونان سنٹر سے ہمارا خریدا ہوا کمپیوٹر ہمارے حوالے کردیا گیاتھا   اور ہم اسے اپنے ہوٹل کے کمرے میں تختہ مشق بنائے ہوئے تھے)۔
واپسی پر سڑک پار کرکے دوسری جانب ہوگئے اور ویسما ایٹریا سمیت اس طرف کے تمام خریداری مرکز دیکھ ڈالے اور ہوٹل واپسی کا پروگرام بنایا۔ اگلی مرتبہ جب ہم اور چودھری صاحب اکیلے دکیلے ہی آرچرڈ روڈ پہنچے تو اس مرتبہ ہم نے ڈائی نے سٹی ہوٹل سے دوسری جانب اسکاٹس روڈ پر چلنا شروع کیا اور تیسری بلڈنگ ’’ اسکاٹ سنٹر کے تہہ خانے میں بنے ہوئے ایک صاف ستھرے فوڈ سنٹر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور مزے لے لے کر پیلی کھچڑی کے ساتھ حلال سالن تناول کیا  اور اس کا لطف اٹھایا۔اس سے آگے چلے تو فار ایسٹ پلازا نے ہمارا راستہ روکا اور ہمیں چہل قدمی کی دعوت دی۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ ایم آر ٹی ابھی نہیں بنی تھی ۔ بعد میں جب ہم ۲۰۱۰ء میں سنگاپور پہنچے تو آرچرڈ روڈ کے اسٹیشن پر اتر کر ان سب جگہوں کو تلاش کرتے رہے جہاں کبھی ہم نے وقت گزارا تھا۔ اسکاٹ سنٹر کی یہ عمارت غائب تھی اور ساتھ ہی یہ فوڈ سنٹر بھی۔  لکی پلازا اتنا دلکش نہ لگا  جتنا کبھی لگا تھا، کیوں کہ راستے میں دونوں اطراف کئی ایک خوبصورت شاپنگ سنٹرز بن چکے تھے۔  خاص طور پر سنگاپورا پلازا جو آرچرڈ روڈ کی تقریباً دوسری جانب‘  دھوبی گھاٹ’  نامی ایم آر ٹی جنکشن کے اوپر بنایا گیا ہے بہت خوبصورت اور با رونق ہے۔
۲۰۱۰ء میں ہم چوتھی  مرتبہ سنگاپور پہنچے تو پچھلی دفعہ سے زیادہ سنگین واردات ہمارے ساتھ ہوچکی تھی۔ اس مرتبہ خان صاحب ہمارے ہمسفر تھے۔ اس مرتبہ ہم کسی بھی تفریحی مقام کی سیر کو نہ نکل سکے،   اس لیے کہ خان صاحب کو  تربیتی مرکز سے ہوٹل واپسی کے بعد کہیں اور جانے کے لیے آمادہ کرنا کار ِ دارد تھا۔ ہم لاکھ انھیں مناتے کہ بھائی کہیں تو نکل چلو ، لیکن وہ اپنے کمرے میں،  لیپ ٹاپ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے،  اپنی محبوبہ سے چیٹ یعنی ہوائی پینگیں بڑھایا کرتے۔ہم چونکہ اس بار چائنا ٹاؤن کے ایک ہوٹل فوراما سٹی سنٹر میں ٹھرے تھے ،  لہٰذا ہر روز رات کا کھانا کھانے کے لیے انھیں سرنگون روڈ کھینچ کر لے جاتے۔ کھانا ختم کرتے ہی،  وہ ہمیں ٹرین اسٹیشن کی جانب اور ہم انھیں شاپنگ سنٹر کی جانب کھینچتے۔ زیادہ تر  جیت ان کی ہی ہوتی کیونکہ وہ ہم سے درخوست بھی کررہے ہوتے تھے کہ ‘وہ اپنی محبوبہ دلنواز کو انتظار کرتا چھوڑآئے ہیں اور واپس پہنچ کر اسکے غصے کو برداشت کرنے اور اسے منانے کا خوشگوار کام بھی انھی کو سر انجام دینا ہے’ ۔
 پاکستان واپس آکر ہم نے ہمجولیوں میں ان کی شکایت کی کہ خان صاحب کا تو سنگاپور میں ایک ہی مشن تھا۔ اپنی محبوبہ دلنواز سے باتیں۔ساتھی کہنے لگے ‘‘ بھئی!  ہم نے تو انھیں ایک بالکل ہی مختلف مشن پر بھیجاتھا۔ خدا جانے وہ اس مقصد و مدعامیں کامیاب ہوپائے یا نہیں۔ ’’
ہم نے حیران ہوکر پوچھا ‘‘ وہ کیا مشن تھا؟’’
جواب ملا’’ ان کا مشن اپنے  ’ٹی اے ۔ڈی اے‘  کے پیسے مکمل طور پر بچا کر ، کھانے کے لیے آپکے  ‘ٹی اے۔ ڈی اے’  پر انحصارِ کلی تھا۔‘‘
ہم حیران رہ گئے۔ ہم ہنس دیے ۔ہم چپ رہے ۔کچھ اس کا سبب چپ تھا، کچھ اس کا سبب باتیں۔
 خیر صاحب ولے بخیر گزشت۔ جن جگہوں کو ہم پچھلی مرتبہ دیکھ نہ پائے تھے،  وہ ان دیکھی ہی رہ گئیں اور جن مقامات کو ایک مرتبہ دیکھ چکے تھے ، انھیں دوسری بار دیکھنے کی ہوس رہ گئی۔ ان چند جگہوں میں خاص طور پر سینتوسا آئی لینڈ بھی شامل ہے۔
اگلے اتوار ہم اور چودھری صاحب جلد ہی اٹھ کر تیار ہو گئے اور مفت ناشتے کے فوائد حاصل کرتے ہوئےٹیکسی پکڑ کر کوہِ فیبر پہنچ گئے۔ وہاں سے ان دنوں سینتوسا آئی لینڈ کے لیے کیبل کار روانہ ہوتی تھی۔ ہم نے فوراً ٹکٹ کٹایا اور کیبل کار میں بیٹھ کر فضائی نظارے کے مزے لیتے ہوئے سینتوسا جزیرے پر اتر گئے۔آج کل  مرینہ مال سے اس جزیرے کے لیے چھوٹی ٹرین چلتی ہےجو سمندر پر بنے ہوئے ایک پل سے گزرتی ہے۔۔سینتوسا  سنگاپور مین جزیرے کے جنوب میں واقع ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جسے سیاحوں اور سیر کے رسیا افراد کے لیے ایک مکمل تفریحی مقام میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ گویا موجودہ دنیاء کے عجائبات میں سے ایک ہے, ۲۰۱۰۔ء میں اس جزیرے میں دو دلچسپیوں کا اور اضافہ کیا گیا جن میں سے ایک  یونیورسل اسٹوڈیو کا ڈسپلئے اور فن سنٹر اور دوسرا  ایک عدد کسینو ہے۔ کسینو کی یہ خوبی بیان کی جاتی ہے کہ یہاں پر سیاحوں کے لیے داخلہ بالکل مفت اور مقامی شہریوں کے لیے سو ڈالر داخلہ فیس کے ساتھ ہے۔اگر یہ کسینو اس زمانے میں بھی موجود ہوتا تو ہمارے چودھری صاحب لازمی اس کی سیر کرتے اور ہمیں ‘مجبوراً ’  ان کا ساتھ دینا ہی پڑتا ۔سب سے پہلے ہم نے یہاں پر بنایا ہوا میوزیم دیکھا اوراس کے مظاہر میں خصوصی دلچسپی ظاہر کی۔
آئی لینڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک  مفت مونو ریل چلتی ہے۔ لہٰذا ہم دونوں اس سہولت کا خوب فائدہ  اٹھاتے رہے  اور اس ریل میں بیٹھ کر بار بار مفت سیر کا لطف اٹھایا۔ایک جگہ سمندر کے کنارے پیڈل بوٹ نظر آئی تو چودھری صاحب مچل گئے۔ہم نے مونو ریل کے قریبی اسٹیشن پر اتر کر وہاں سے دوڑ لگائی اور ایک ایک پیڈل بوٹ کرائے پر لیکر تقریباً دوگھنٹے تک پیڈل مارتے رہے۔ عجیب واہیات سواری ہے۔ اس وقت کچھ احساس نہیں ہوتا، بعد میں خوب پتا چلتا ہے۔ دو گھنٹے گزار کر اس سے اترے تو اگلے دو دن تک لنگڑاتے رہے اور اس گھڑی کو کوستے رہے جب چودھری صاحب کو پیڈل بوٹس نظر آئی تھیں۔جھٹپٹے کے وقت تک اسی طرح مختلف تفریحات میں مشغول رہے۔ اندھیرا پھیلنے لگا تو ٹکٹ لیکر میوزیکل فاؤنٹین کے چھوٹے سے اسٹیڈیم میں جابیٹھے۔درمیان میں ایک تالاب میں کئی فوارے پانی اچھال رہے تھے۔ اندھیرا چھاگیا تو شو شروع ہوا۔ مختلف رنگوں کی روشنیاں میدان میں رقص کرنے لگیں ، بہترین ساؤنڈ سسٹم پر موسیقی شروع ہوئی تو رنگ و نور کا ایک طوفان آگیا اور تمام فوارے اور رنگ برنگی روشنیاں اس موسیقی کی تال پر رقص کرتے ہوئے پانی سے کھیلتے رہے۔ہم اس اسٹیڈیم میں موجود تمام تماشائیوں کے ہمراہ دم بخود اس حسین نظارے کو دیکھتے رہے۔ کوئی ایک گھنٹے کے اس شو میں انھوں نے کئی انگریزی ، چائنیز اور ہندوستانی گانوں کی تال پر رقص کیا اور داد سمیٹی۔ آخر میں جب انڈین فلم قربانی کا مشہور یہ گاناچھیڑا  گیا
‘‘ قربانی، قربانی،  قربانی
اللہ کو پیاری ہے قربانی’’
تو فواروں ،  رقص و موسیقی او ر روشنی کے اس طوفان میں ہم بھی جھوم اٹھے۔ گانا، موسیقی، رنگ و نور اور فواروں کا رقص اپنے عروج پر پہنچ کر یکبارگی تھم گیا، لیکن ناظرین کی تالیاں اگلے دس منٹ تک فضا ء کو گرماتی رہیں۔ واقعی یہ ایک ایسا نظارہ تھا جو ہمیں مدتوں یاد رہے گا۔
اب تو سنا ہے کہ انڈر واٹر ورلڈ کے نام سے ایک اور مظہر وجود میں آچکا ہے لیکن ہماری ۲۰۱۰ء کی سیر کے پروگرام میں  خان صاحب کی محبوبہ آڑے آئیں اور ہم اس جزیرے کو دوبارہ نہیں دیکھ سکے۔ایک بار دیکھا ہے ، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے
 ہم نے بارہا خان صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ سنگاپور سے واپسی تک اپنی محبوبہ دلنواز کو خدا حافظ کہہ دیں کہ واپسی پر تمہارے لیے ٹافیاں لے کر آئیں گے، لیکن وہ نہ مانے ۔
آخری دن ہم اپنی شاپنگ لسٹ سنبھال کر مصطفےٰ اور شمس الدین پہنچ گئے اور بشمول ایک عدد بڑے سوٹ کیس،  تمام اشیاء  وہیں سے بازار سے با رعائت خریدیں اور خوش خوش سنگاپور سے وطن واپس لوٹے۔
کراچی ائر پورٹ پر کسٹم آفیسر نے ہمارا سوٹ کیس اور اس کے ساتھ کمپیوٹر اور مانیٹر کے دو  ڈبے دیکھے تو بظاہر گھبرا کر اور بباطن خوش ہوتے ہوئے سوال کیا۔‘‘ کیا کیا خرید لیا بھائی جان؟’’
ہم نے سوالیہ انداز میں ان کی جانب دیکھا تو وہ اور زیادہ خوش ہوگئے۔ مرغا پھنس گیا، انھوں نے شاید یہ سوچ کر ہمارا سامان کھلوا لیا، لیکن اسے دیکھتے ہی ان کا منہ بن گیا اور انھوں نے مزید وقت ضائع کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے ہمیں جانے کا اشارہ کردیا۔ ادھر کئی کھیپیے لائن میں موجود تھے جن پر آفیسر صاحب کی نظر کرم ٹہر گئی۔  
دنیاء  یہی دنیاء  ہے تو کیا یاد رہے گی۔
تمت بالخیر

No comments:

Post a Comment