Saturday, December 24, 2011

المانیہ او المانیہ۔ جرمنی کی سیر

قسط نمبر (۲)

یورپ کے عین درمیان میں واقع ، نارتھ اور بالٹک سمندروں اور سلسلہ کوہ آلپس کے درمیان موجود اس ملک کا سرکاری نام فیڈرل ریپبلک آف جرمنی ہے اور اسکا رقبہ لگ بھگ تین لاکھ ساٹھ ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ اسکے مشرق میں پولینڈ اور چیک ریپبلک واقع ہیں تو جنوب میں آسٹریا اور سوئٹزر لینڈ ہیں ، مغرب میں فرانس ، بیلجئیم لکسمبرگ اور ہالینڈ واقع ہیں اور شمال میں ڈنمارک۔ اسکا صدر مقام برلن ہے اور آبادی تقریباً اکیاسی ملین ہے۔ جس زمانے کا یہ قصہ ہے ، یہ ملک دو حصوں میں بٹا ہوا تھا، مشرقی اور مغربی جرمنی۔ مغربی جرمنی فیڈرل ریپبلک آف جرمنی کہلاتا تھا اور مشرقی جرمنی پیپلز ریپبلک آف جرمنی۔ ایک ملک آہنی پردے کی اس جانب واقع تھااور نیٹو کا حصہ تھا تو دوسرا دوسری جانب تھا اور وارسا پیکٹ میں شامل۔ ایک امریکن بلاک میں تھا تو دوسرا روسی بلاک میں۔یورپین یونین ابھی وجود میں نہیں آیا تھا اور سوویت یونین اپنے تمامتر اتحادیوں سمیت موجود تھا۔اور تو اور، شہر برلن بھی دوحصوں میں تقسیم کیا گیا تھا، مشرقی اور مغربی برلن۔ مغربی برلن جو مشرقی جرمنی کے عین درمیان میں واقع تھا، مغربی جرمنی کا شہر تھا اور مشرقی جرمنی والوں نے اس شہر کے گرد ایک دیوار کھینچ دی تھی جو دیوارِ برلن کہلاتی تھی۔اِس جغرافیے کے پس منظر میں، ہم مغربی جرمنی کے مہمان تھے۔

اگلے دن کی سرمئی صبح برفباری کے ساتھ طلوع ہوئی۔ ہم بمشکل اٹھے اور تیاری وغیرہ کرکے بس اسٹاپ پر جاکھڑے ہوئے۔بس اسٹاپ کے شیڈ میں پہنچے تو اپنے مشہورِ زمانہ اوور کوٹ سے برف کو جھٹکا ، سردی سے تمتمائی ہوئی اپنی ناک کو اپنے ہاتھ سے چھو کر محسوس کیا تو اللہ کا شکر بجالائے کہ ابھی اپنی جگہ پرہی موجود ہےاور بس کا انتظار شروع کردیا۔مسلسل برفباری کا یہ انوکھا منظر ہم نے پہلے کب دیکھا تھا، مبہوت ہوکر ہر طرف دیکھا کیے۔ سبحان تیری قدرت۔
بس آئی تو ایک انوکھا نظارہ دیکھا۔ نہ بس ڈرائیور نے بس کو اسٹاپ سے دور لے جاکر روکا، نہ لوگوں کا ہجوم اس کی طرف دوڑا بلکہ جو کچھ لوگ بشمول رنگا رنگ کپڑوں میں ملبوس طلبا و طالبات وہاں موجود تھے ایک باقاعدہ لائن بنا کر بس کے اگلے دروازے سے داخل ہونا شروع ہوئے اور ساتھ ہی ڈرائیور کو ٹکٹ کے پیسے دیکر، اس سے ٹکٹ حاصل کرتے ہوئے ، اندر داخل ہوتے رہے۔پچھلا دروازہ مسافروں کے بس سے اترنے کے لیے تھا، لہٰذا اُدھر سے کوئی بھی شخص داخل نہیں ہوا۔ بس چل پڑی۔ اتوار کی بہ نسبت زیادہ رش تھا، اس لیے ہم بھی ایک کونے میں ڈنڈا پکڑ کر کھڑے ہوگئے اور اپنے اسٹاپ کا انتظار کر نے لگے۔
گو بس میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، لیکن سفر مزیدار گزر رہا تھا۔ جہاں برفباری کا حسین منظر بصارتوں کے لیے ایک حسین تحفہ ثابت ہورہا تھا تو وہیں جرمن خواتین کی گفتگو کے آواز و انداز سماعتوں میں شیرینی گھول رہےتھے۔ہم خوش ہوئے اور خوش خوش اپنے اسٹاپ پر اترے اور پھر وہیں سے اپنے تربیتی مرکز تک گرتی ہوئی برف کے مزے لیتے ہوئے ہم نے ایک طویل واک کا آغاز کردیا۔ہر قدم ایک نئی جد و جہد تھا۔بمشکل زور لگا کر اپنا پاؤں برف میں سے نکالتے اور ایک فٹ دور اسے دوبارہ نرم سی برف میں دھنسادیتے۔برف میں چلتے چلتے، گرتے پڑتے آخر کار ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچ ہی گئے۔ استقبالیہ پر پہنچ کر اپنے نام کا اعلان کیا اورضروری کاروائیوں کے بعد اپنی کلاس میں پہنچا دئیے گئے۔ نئے دوستوں سے ملے۔ جو لوگ پچھلی مرتبہ کے تجربہ کار تھے ، فوراً کچن سے چائے اور کافی کے تھر ماس اٹھالائے جو فری تھے۔ ہم نے پہلی مرتبہ اسٹرانگ جرمن کافی نوش جان کی اور پسند کی۔استاد کے آنے سے پہلے پہلے ہم کافی پی کر سردی سے بچاؤ کی تدابیر اور اپنی کلاس کے دوستوں کے ساتھ اچھی خاصی گپ شپ کرچکے تھے۔ استاد صاحب تشریف لائے اور ایک عدد بور قسم کی تربیت کا آغاز ہوا۔ دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوا تو دوستوں کے ہمراہ کمپنی کی ایک دوسری عمارت میں پہنچ گئے ۔کینٹین میں پہنچے تو وہاں پر بھی ایک عجیب و غریب منظر دیکھا۔ کیا چھوٹا ، کیا بڑا ہر افسر و کلرک ایک ہی لائن میں کھڑےہوئےتھے۔
ایک ہی صف میں کھڑے تھے گویا محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ ہی تھا اور نہ کوئی بندہ نواز
کینٹین میں پہنچ کر حلال غذا کی تلاش شروع کی اور آخر کار تھک ہار کر سلاد، ڈبل روٹی اور مکھن قسم کی اشیا پر ہی گزارا کیا۔
شام سے پہلے پہلےہم ریشارد شغم ( رچرڈ شرم) ایک جرمن ساتھی اور ایک کینیڈین ساتھی سے گہری دوستی گانٹھ چکے تھے۔ شرم کو اپنے پروگرام کے بارے میں بتایا کہ ہم ایک عدد کموڈور ۶۴ کمپئیوٹر خریدنا چاہتے ہیں تو اس نے جی جان سے مدد کا وعدہ کرلیا۔ کینیڈین ساتھی نے بتایا کہ وہ سنٹرم کے قریب ہی ہوٹل پیئر میں قیام پذیر ہے تو روزآنہ اس کے ساتھ پیدل ہی سنٹرم تک جانے لگے۔ سنٹرم تک پہنچ کر پہلے تو کسی ریسٹورینٹ میں بیٹھ کر کافی کا ایک اور کپ نوشِ جان فرماتے اور اپنے کینیڈین ساتھی کو جامِ شراب لنڈھاتے ہوئے یعنی بئیر کا ایک بڑا گلاس اسکے حلق سے اتارتے ہوئے دیکھتے، ڈھیروں باتیں کرتے اور پھر اسے اسکے ہوٹل چھوڑتے ہوئے اپنی بس پکڑتے۔ کبھی کبھی رات ہوجانے پر میکڈانلڈ سے فش فلے اور کافی یا ہاٹ چاکلیٹ کا ایک بڑا گلاس لیتے اور اس طرح رات کے کھانے سے فارغ ہوکر ہی اپنے کمرے میں واپس پہنچتے۔ ادھر یہ بات بھی پتہ چلی کہ ہم پہلے دن سے جس بس اسٹاپ پر اترتے آرہے تھے وہ ٹریننگ سنٹر سے کافی دور تھا، اگر ہم ایک دو اسٹاپ بس کو اور برداشت کرتے تو قریبی اسٹاپ پر اتر سکتےتھے۔خیر آئیندہ کے لیے ہم نے اپنے راستے میں تبدیلی کرلی اور دو اسٹاپ کے بعد اترنے لگے۔
کینیڈین ساتھی ہی کی بدولت ایک اور یوروپین سے دوستی ہوئی جو کسی اور کلاس میں تھا اور وقفوں میں کافی پینے کے لیے ہمارے کمرے میں آجاتا تھا۔ اس کا نام اب بھی یاد ہے ، وہ سوین گنار اولسن تھا۔بلا کا باتونی۔ ہر موضوع پر بولتا اور اچھابولتا تھا۔ ادھر شرم کے ساتھ دوستی بھی اچھی نبھ رہی تھی، یعنی اس نے اپنا وعدہ پورا کردکھایا تھا۔ پہلے تو وہ ہمیں شہر کے مختلف اسٹورز پر لے گیا اور وہاں ہماری فرمائش پر کموڈور کی قیمت دریافت کی، پھر ہمیں لے کر شہر سے تقریباً باہر ایک بڑے اسٹورپر جا کر ان کے کاؤنٹر پرہمیں پیش کردیا۔ ہم نے کمپئیوٹر کی قیمت دریافت کی تو پتہ چلا کہ قیمت میں کہیں بھی فرق نہیں ہے، لہٰذا ہم نےاپنے پیارے دوست شرم کے مشورے کے ساتھ، وہیں سے اپنی زندگی کا سب سے پہلا کمپئیوٹر بمع ایک عدد فلاپی ڈرائیو کے خریدا۔ ہم نے ان دونوں چیزوں کے نام لیے اور کلرک نے قریب ہی کسی شیلف سے نکال کر ان چیزوں کو ہمارے حوالے کردیا۔ نہ چیکنگ کی دِقت اور نہ ڈبے کھولنے کی ضرورت، ہم نے قیمت ادا کی اور شرم کے ساتھ آکر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اب ایک مشکل اور تھی۔ اس کمپئیوٹر کو ہم کون مانیٹر پر دیکھیں گے؟ ہم نے شرم کو اس مشکل سے آگاہ کیا تو اس نے فوراً گاڑی موڑلی اور سنٹرم میں واقع واحد ڈیپارٹمنٹل اسٹور پہنچ کر ہمیں ایک عدد چھوٹا، چھ انچ اسکرین کا بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی بھی مول لےدیا۔ ہماری ساری مشکلیں آسان ہوچکی تھیں۔ کشاں کشاں گھر پہنچے ۔ گھر پہنچ کر ٹی وی کو ٹیون کیا اور جرمن نشریات دیکھتے ہوئے کمپئیوٹر کو اسکے ڈبوں سے نکال کر سیٹ کیا ۔ پھر کیا تھا، ہماری تو پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑھائی میں۔ رات کوباری باری، دیر تک، کبھی ٹی وی دیکھتے اور کبھی کمپئیوٹر سے کھیلتے۔ چند ایک جملوں کے علاوہ ،( مثلاً ڈانکے شون یا ڈانکے، بیٹے شون، آف ویڈے زین، اش بین آئنے ٹیکنیکار وغیرہ) جو ہم اب تک سیکھ چکے تھے، جرمن زبان گو ہماری سمجھ سے بالاتر تھی ، پھر بھی کبھی کبھی تو اتنے ’اچھے‘ اور ’دلچسپ‘ پروگرام دیکھنے کو ملتے تھے کہ طبیعت باغ باغ ہوجاتی اور ہم عش عش کر اٹھتے۔یہی لن ترانیاں تھیں اور ہم تھے۔پورا ہفتہ اسی طرح مصروف گزر گیا۔
ایک ایسےہی جمعے کی شام کا ذکر ہے، ہم ٹریننگ سنٹر کی مصوفیات سے فارغ ہوکر اپنے کینیڈین دوست کے ساتھ ایک قریبی ریستوران میں بیٹھے موسم کا لطف اٹھارہے تھے اور ساتھ ہی اسی طرح کافی کی چسکیاں لے رہے تھے، جس طرح ہمارا دوست بیئر کے مزے لے رہاتھا۔ کتنی شیریں تھی زندگی اُس پل۔ پاکستان سے باہر جاکر جمعہ کی شام کا تو لطف ہی دوبالا ہوجاتا ہے۔ ڈھائی دن کی پُر لطف چھٹی ہمارے سامنے تھی۔ چاہیں سوئیں، چاہیں اپنے نئے کمپئیوٹر پر گیم کھیلیں، چاہیں لیٹے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے۔ 
اچانک ہمارے کینیڈین دوست نے اپنی خمار آلود نگاہیں اوپر اٹھائیں اور ہم سے مخاطب ہوا۔
’’ خلیل! کیا خیال ہے؟ کیوں نہ برلن چلیں؟‘‘
’’برلن؟ ابھی؟‘‘ ہم حیران رہ گئے۔’’ گورا نشے میں ہے۔‘‘ ہم نے سوچا۔
’’ہاں۔ کیوں نہیں؟‘‘ وہ ترنگ میں آکر بولا۔
اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ دو دن کی پہاڑ جیسی چھٹی ہمارے سامنے تھی۔ہم نے فوراً حامی بھرلی۔
ہم دونوں نے جلد جلد اپنے مشروبات ختم کیے اور وہاں سے نکل کر ریلوے اسٹیشن پہنچے جو سنٹرم سے زیادہ دور نہ تھا۔ معلومات کی کھڑکی سے معلوم ہوا کہ برلن جانے والی انٹر سٹی ریل گاڑی رات بارہ بجے یہاں سے روانہ ہوگی۔ ہم نے بکنگ کروا لی اور اپنے اپنے مستقر کی طرف روانہ ہوگئے۔ رات بارہ بجے دوبارہ ایک ایک تھیلا لیے اسٹیشن پر ملے اور ٹرین کے آنے پر اطمینان کے ساتھ اس کی آرام دہ سیٹوں پر براجمان ہوگئے۔ ٹرین ساری رات کئی گھنٹے چل کر صبح سویرے برلن زو اسٹیشن پہنچےگی۔ ریل گاڑی چھکا چھک چلی اور ایرلانگن سے روانہ ہوئی اور رات کے کسی پہر سرحد پار کر گئی۔ کچھ سرحدی گارڈ ریل گاڑی پر چڑھ آئے اور لگے پاسپورٹ چیک کرنے۔ ہم دونوں نے اپنے پاسپورٹ انکے حوالے کیے تو انھوں نے کاغذی کارروائی کے بعد ایک علیحدہ کاغذ پر مشرقی جرمنی کا ٹرانزٹ ویزا ہمارے حوالے کر دیا اور یوں ہم مغربی جرمنی سے مشرقی جرمنی میں داخل ہوگئے۔ 
ہم نے آرام دہ برتھ پر لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں اور ایک دوسری دنیا میں پہنچ گئے۔ صبح سویرے تازہ دم ہوکر اٹھے تو اجالا پھیل چکا تھا اور ریل گاڑی مشرقی جرمنی کےمیدانوں، کھیتوں اور کھلیا نوں ، بستیوں اور ویرانوں سے دوڑتی ہوئی گزرتی جارہی تھی۔ پہلی چیز جو ہم نے محسوس کی وہ مغربی جرمنی اور مشرقی جرمنی کے ماحول کا واضح فرق تھا۔ جہاں مغربی جرمنی کے ماحول سے امارت ٹپکتی تھی وہیں مشرقی جرمنی کا ماحول نسبتاً غربت کی عکاسی کرتا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہم مشرقی جرمنی کو عبور کرکے مغربی برلن میں داخل ہوگئے اورصبح سات بجے کے قریب برلن زو نامی ریلوے اسٹیشن پر اتر گئے۔
ریلوے اسٹیشن سے خراماں خراماں چلتے ہوئے باہر نکلے تو برلن کی خوبصورت صبح اپنے حسین جلوے بکھیرے ہماری منتظر تھی۔ ہم نے سڑک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ٹہلتے ہوئے ایک چکر لگا یا اور برلن کا مشہور ناشتہ کرنے کے لیے ریستوران کے باہر لگی ہوئی ایک میز پر براجمان ہوگئے۔ مزے لے لے کر ناشتہ کیا اور اس دوران موسم اور دیگر نظاروں کا خوب لطف اٹھایا۔ ناشتے سےفارغ ہوئے تو دیکھا کہ قریب ہی کئی ٹووربسیں مسافروں کے انتظار میں کھڑی تھیں۔ ہم نے بھی مشرقی برلن کے ٹوور کا بس ٹکٹ خرید لیا۔ یہ سفرچار گھنٹے دورانیئے کا تھا۔بس کچھ دیر مسافروں کے انتظار کے بعد ہمیں لے کر چلی تو آن کی آن میں دیوار برلن کی مشہور گزرگاہ چیک پوائنٹ چارلی پہنچ گئی۔ یہاں ہم قارئین کو اس بدنامِ زمانہ دیوار کی تاریخ سے آگاہ کرتے چلیں۔
جنگِ عظیم دوم کے اختتام پر شکست خوردہ جرمنی کو اتحادیوں کےچار فاتح ملکوں یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس نےپوٹسڈیم ایگریمنٹ کے ذریعے چار حصوں میں بانٹ لیا۔ برلن جو جرمنی کا دارالخلافہ تھا، اسے بھی اسی طرح چار سیکٹرز یعنی حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ اس بندر بانٹ کے دوسال کے اندر اندر ہی اتحادی قوتوں کا فاتح اتحاد پارہ پارہ ہوگیا اور روس اپنے حصے کو لیکر علیحدہ ہوگیا ۔ اِدھر امریکہ برطانیہ فرانس اور قریبی ہالینڈ، بیلجئیم اور لکسمبرگ نے مارشل پلان کے ذریعے باقی تین حصوں کو ملا کر مغربی جرمنی کی تشکیل کی راہ ہموار کردی۔مغربی برلن بھی اسی منصوبے کے تحت مغربی جرمنی کی حدود میں آگیا۔ 
مشرقی جرمنی کے تسلط سے آزادی پانے کے خواہش مند سینکڑوں باشندوں نے موقع غنیمت جانا اور اور سرحد پار کرکے مغربی برلن پہنچنا شروع ہوگئے، جہاں سے وہ آزاد ی کے ساتھ مغربی جرمنی جاسکتے تھے۔ 
اس صورتحال کے پیشِ نظر ۱۹۴۸ میں روسی ڈکٹیٹر جوزف اسٹالن نے مغربی برلن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور اسے چاروں طرف سے گھیر کر ہر قسم کی آمد و رفت اور سپلائیز کو روک دیا گیا۔مغربی طاقتوں نے اس مشکل صورتحال سے اہلِ شہر کو نکالنے اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے لیے برلن ائر لفٹ کا پروگرام بنایا اور اس طرح تمام نجی ائر لائینز کو اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔ برلن ائر لفٹ نے اس بائیکاٹ کو بے معنی بنادیا تو ۱۹۴۹ میں یہ بائیکاٹ ختم کردیا گیا۔ ۱۳ اگست ۱۹۶۱ کو مشرقی جرمنی نےدیوار برلن کی تعمیر شروع کی اور اس طرح مغربی برلن کو گھیر کر ہر قسم کی آمد و رفت کو ناممکن بنادیا۔
بالآخر ۱۹۸۹ میں جرمنی متحد ہوا ، اور اس دیوار کو گرادیا گیا لیکن اس عرصے میں تقریباً ۵۰۰۰ لوگوں نے دیوار پھلانگنے کی کوشش کی جن میں سے تقریباً دوسو افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۱۹۸۶ میں جب ہم مغربی جرمنی پہنچے، تو جرمنی دوحصوں میں منقسم تھا اور دیوارِ برلن اپنی تمام تر حشر سامانیوں سمیت موجود تھی، جسے ہم چار گھنٹے کے لیے عبور کیا چاہتے تھے۔
باقی آئیندہ

No comments:

Post a Comment