Monday, March 4, 2013

المانیہ او المانیہ۔ قسط نمبر چار

المانیہ او المانیہ۔جرمنی کی سیر
محمد خلیل الرحمٰن 
(قسط نمبر چار)

اسی کشمکش میں گزریں مری جرمنی کی راتیں
کبھی کچھ حسین چہرے، کبھی ان کی شوخ باتیں
خبردار ! بلکہ ایک مرتبہ پھر خبردار!۔ کہیں شاعرِ مشرق کے ساتھ ہماری اس برجستہ گستاخی سے کوئی اور مطلب نہ نکال لیجیے گا۔ ہم تو ( غالب کی روح سے معذرت کے ساتھ) صرف اس بات کے قائل ہیں کہ
نیند اس کی ہے! دماغ اس کا ہے! راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے خوابوں میں پریشاں ہوگئیں

جمعہ کی صبح ہمارے لیے ، خوشی و غم کے ملے جلے جذبات لے کر آئی۔آج جرمنی میں ہمارے پہلے کورس کا اختتام تھا اور اس حوالےسے جہاںہمیں اپنے پرانے دوستوں کے بچھڑنے کا غم تھا وہیں بابو کی آمد اور نئے دوستوں سے ملاقات کی خوشی اور اشتیاق تھا۔ تربیت گاہ پہنچے تو ایک عجیب منظر دیکھا۔کسی منچلے نے تختہٗ سیاہ پر جلی حروف میں ٹی۔جی۔آئی ایف لکھ دیا تھا۔ ہماری کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ اس شوخیٗ تحریر کا آخر مدعا کیا ہے۔ ہمارے کینیڈین دوست نے فوراً ہماری مشکل آسان کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ اس کا مطلب ہے، ‘‘تھینک گاڈ اِٹس فرائیڈے یعنی اللہ کا شکر ہے آج جمعہ ہے۔
تب تو ہم فوراً سمجھ گئے۔ دراصل مغرب میں ہفتے کا اختتامیہ دودن یعنی ہفتے اور اتوار پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان دو دنوں میں اہل مرکب مکمل تفریح کرتے ہیں، لہٰذا جمعے کا مبارک دن انہیں اس ڈھائی دن کی چھٹی کا مژدہ سناتا ہے۔ ہم نے وہاں برف باری کے دوران منچلے لوگوں کو اپنی فور وہیل ڈرائیو جیپ پر اپنی کھڑی سائیکلیں کسے گھر سے دور پکنک پر جاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
کچھ دوست جو یورپ یا جرمنی ہی کے دوسرے شہروں سے آئے تھے، صبح ہی اپنے ہوٹلوں سے چھٹکارا حاصل کرچکے تھے اور اپنا سارا سامان اپنی موٹر گاڑیوں میں ڈال لائے تھے تاکہ دوپہر کو لنچ کرتے ہی اپنے اپنے ٹھکانوں کو لوٹ جائیں۔ہم پچھلے ہفتے کھائی ہوئی دو دعوتوں کے خمار میں تھے۔ پہلی دعوت ہمارے پیارے دوست ریشارڈ شغم نے صرف ہمیں دی تھی اور دوسری دعوت ہمارے ریجن کے منتظم نے اپنے تمام مہمان طالب علموں کو دی تھی۔ ان دونوں حسین شاموں کا تذکرہ بھی اب ہمارے لیے ایک میٹھی میٹھی ، لذت انگیز ، درد بھری کسک کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ یہ دنیا اچھے ، ملنساراور دوست لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ جب بھی دو انسان کچھ دنوں کے لیے ایک دوسرے کے قریب وقت گزارتے ہیں، لازمی طور پر ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں۔ وہ لوگ ایک دن ہمیں ضرور یاد آتے ہیں اور بے طرح یاد آتے ہیں۔ ہمیں آج یہ واقعات لکھتے ہوئے نہ صرف اپنے وہ دوست یاد آرہے ہیں بلکہ اپنے سنڈک ری اسکول کے ایک استاد کا ہماری آٹو گراف بک پر لکھا ہوا یہ شعر بھی یاد آرہا ہے۔
فرصت نہ دیں گے یوں تو غمِ زیست ایک پل
کچھ دن تمہاری یاد مگر ، آئے گی ضرور
ایک دن صبح ہی ریشادڈ نے ہمیں اپنے گھر پر رات کے کھانے کے لیے دعوت دے ڈالی اور ہم نے لگے ہاتھوں، بصد شکریہ اس دعوت کو قبول بھی کرلیا۔سہ پہر پانچ بجے جب اسکول کی چھٹی ہوئی تو ہم بھی اس کے ساتھ اسکی موٹر گاڑی میں بیٹھ گئے اور وہ ہمیں لے کر کشاں کشاں حلال گوشت کی تلاش میں نکلا۔ ایک جگہ حلال گوشت مل گیا تو وہ ہمیں اپنے جلو میں لیے ہوئے اپنے فلیٹ پر پہنچا اور فوراً ہی باورچی خانے میں جاکر ایک عدد پیتزا بنانے کا اہتمام شروع کردیا۔ بز ار دقت پیتزا بن کر تیار ہوا ، اس نے دو عدد موم بتیاں روشن کیں اور انھیں میز پر سجاکرہم دونوں نے مزے لے لے کر مزیدار پیتزا کھانا شروع کیا۔ یورپ میں رات کے کھانے کے وقت موم بتیوں کا استعمال بھی خوب ہے۔ اسے کھانا کھاتےوقت ماحول کی ایک خوشگوار تبدیلی سمجھا جاتا ہے۔ آپ جیسے ہی کسی ریستوران میں اپنی میز پر پہنچتے ہیں، ایک خوبصورت سی میزبان آگے بڑھ کر آپکی میز پر رکھی ہوئی موم بتیوں کو روشن کردیتی ہے اور فورا ً آپ کا آرڈر لینے کے لیے ہمہ تن گوش ہوجاتی ہے۔ اگر کسی نے آپ کو اپنے گھر پر دعوت دی ہے تو وہاں پر بھی کھانا شروع کرنے سے پہلے کھانے کی میز پر موم بتیاں روشن کردی جاتی ہیں۔ چاہنے والوں کے لیے تو کینڈل لائٹ ڈنر ایک خوبصورت اور معنی خیز دعوت ہوتی ہے۔ 
ہم دونوں اس لذیذ پیتزا کا مزا بھی لے رہے تھے اور دنیا جہان کے موضوعات پر باتیں بھی کررہے تھے۔دورانِ گفتگو ہم نے اس سے ایک انتہائی ذاتی قسم کا سوال کرڈالا۔ ہم نے اس سے بے تکلفانہ انداز میں اس سے اس کے سنگل ہونے کا راز پوچھا۔ 
بغیرشرمائے اس نے بتایا کہ حال ہی میں اسکی اپنی گرل فرینڈسے علیحدگی ہوچکی ہے۔
ہم نے اسکے اس جواب سے ہمت پکڑی اور فوراً حملہ کردیا‘‘ اس کی وجہ؟’’
ریشارڈ نے اس بات کا بھی برا نہ منایا اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یوں گویا ہوا۔
‘‘دراصل ہمارے تعلقات اس حد تک آگے بڑھ چکے تھے کہ ہم اپنی شادی کے ممکنات پر بھی غور شروع کرچکے تھے۔’’
‘‘واقعی؟ پھر کیا ہوا؟’’ ہم نے خوش ہوتے اور اس نازک صورتحال میں مزید دلچسپی لیتے ہوئے سوال کیا۔’’
‘‘ پھر یوں ہوا کہ اس نے میرے سامنے اپنے ماں باپ کی مرضی کے مطابق یہ مطالبہ رکھ دیا کہ شادی کے بعد ہم دونوں اسکے ماں باپ کے گھر پر رہیں گے۔’’
‘‘پھر کیا ہوا؟’’
‘‘ مجھے یہ بات منظور نہیں تھی۔ میں چاہتا تھا کہ شادی کے بعد ہم دونوں یہاں اس فلیٹ میں رہیں۔’’
‘‘تو کیا اس نے تمہاری تجویز سے اتفاق نہیں کیا؟’’
‘‘نہیں۔ ہم دونوں میں اس بات پر اتفاقِ رائے نہ ہوسکا اور ہم علیحدہ ہوگئے۔’’
‘‘بہت افسوس ہوا یہ سن کر۔’’ ہم نے اس کے ساتھ ہمدردی جتائی۔ آخر کو وہ ہمارا گہرا دوست تھا۔
‘‘افسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اب میں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اگلی مرتبہ اپنی کسی گرل فرینڈ سے شادی کے بارے میں سوچنے سے پہلے میں اس کے ساتھ سال چھ مہینے زندگی گزاروں گا تاکہ اسے اچھی طرح سمجھنے کے بعد ہی اس قسم کا کوئی فیصلہ کروں۔’’
‘‘ارے؟’’ ہم حیران رہ گئے۔
وہ شام یونہی اوٹ پٹانگ باتوں میں گزر گئی۔ اگلے دن دورانِ کلاس ہمارے ریجنل منتظم نے ہمیں پیغام پہنچایا کہ شام کو وہ ہمارے اعزاز میں ایک دعوت دے رہےہیں جو سنٹرم کے قریب ایک ریستوران میں ہوگی اور ہمیں چاہیے کہ ہم شام سات بجے وہاں پہنچ جائیں۔
اپنے تئیں ہم ٹھیک وقت پر گھر سے نکلے اور بس اسٹاپ پر پہنچ کر بس کا انتظار شروع کیا۔ اللہ جانے اس دن کیا ہوا کہ ہمیں وہ بس نہیں ملی اور ہم آدھ گھنٹے بعد آنے والی بس پکڑ کر ریستوران پہنچے ۔ لیٹ ہوچکے تھے اس لیے وہاں پر مہتمم صاحب اپنی بیگم صاحبہ و دیگر مہمانوں سمیت نہایت بے چینی کے ساتھ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ سلام و تعارف اور دیگر رسمی خوشگوار جملوں کے تبادلے کے بعد ہم نے پیش کی گئی کرسی سنبھالی جو مہتمم صاحب کی بیگم صاحبہ کے برابر تھی ، اپنے حواس درست کیے اور اپنے دیر سے آنے کی وجہ بیان کرنے کی کوشش کرڈالی ۔ خیر جرمنی میں بس کے نہ آنے یا دیر سے آنے کا خیال ہی بے معنی ہے، لذٰکا ہماری ساری کوششیں یونہی ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ گئیں اور بات آئی گئی ہوگئی۔
ہمارے ریجن کے جتنے بھی طالب علم اس وقت شہر میں موجود تھے، انھیں بھی مہتمم صاحب نے دعوت دی تھی، لہٰذا ہمیں ملا کر دعوت میں کل چھ اشخاص تھے۔ ہم چونکہ میزبان خاتون کے پہلو میں بیٹھے تھے، لہٰذاانھوں نے فوراً ہم سےپوچھا کہ ہم کون سا مشروب پینا پسند کریں گے؟ ہم نے اِدھر اُدھر دیکھا، ہماری میز پر ہر طرف بئیر کے گلاس نظر آرہے تھے۔ ہم نے محفوظ ترین مشروب یعنی کافی کا نام لے ڈالا۔ خاتون پریشان سی ہوگئیں اور ہم سے پوچھا کہ کیا واقعی ہم بئیر نہیں پئیں گے ؟ 
ہائے رے مجبوری۔
اول شب وہ بزم کی رونق ،شمع بھی تھی ، پروانہ بھی
یعنی موسم تو عاشقانہ تھاہی، میخانہ بھی گرم تھا، ساقی بھی ساقی گری کی لاج رکھنے کے لیے تیار تھا، ایک ہم ہی پینے والے نہ تھے۔
ہم نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم شراب نہیں پیتے اس پر ان خاتون کی پریشانی میں اور اضافہ ہوگیا اور انھوں نے ہمیں وائن کی پیشکش کردی۔ ہم نے دل ہی دل میں مسکراتے ہوئے ، ان سے کہا کہ اے نیک دل خاتون، وائن بھی شراب ہی ہے لہٰذا ہم الکوحل سے پاک کوئی مشروب ہی پی سکتے ہیں۔ تب اس نیک دل خاتون نے ہماری توجہ آرنج جوس کی طرف دلائی تو ہم نے فوراً حامی بھرلی۔ ان کی جان میں جان آئی کہ مہمان خوش ہوا اور انھوں نے ایک گلاس آرنج جوس کا آرڈر کردیا۔ ادھر مہمان کی بھی جان میں جان آئی کہ یہ معاملہ بحسن و خوبی حل ہوا۔ چونکہ محفل کے دیگر تمام شرکا بے چینی کے ساتھ ہمارا انتظار کررہے تھے، لہٰذا ہماری آمد آمد کے ساتھ ہی کھانے کا آرڈر دیا گیا۔ اِدھر ایک مرتبہ پھر ہمیں دخل در معقولات کرنی پڑی اور ہم نے انھیں بتایا کہ ہم مذہبی طور پر چونکہ خنزیر کے گوشت یا گائے کے بغیر حلال کیے ہوئے گوشت سے پرہیز کرتے ہیں لہٰذا ہم صرف سمندری غذا یا سبزی پرہی گزارا کریں گے۔ اب تو تمام دوستوں نے نہایت دلچسپی کے ساتھ اس کوشش میں حصہ لیا اور ہمارے لیے کھانے کی ڈش کا انتخاب کیا۔یہ مشق بھی خوب تھی اور یاروں نے اس سےخوب ہی لطف اٹھایا۔ مینو کارڈ منگوا کر ہر ہر آئیٹم کا بغور جائزہ لیا گیا ، اس کی جزئیات کو دیکھا گیااور مآلِ کار کچھ ایسی ڈشز مل ہی گئیں جو ہمارے معیارِ انتخاب پر پوری اترتی تھیں۔ڈنر کا آرڈر دیا گیا اور اس مشکل صورتحال سے بھی بخیر و خوبی نکلے تو ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنی میزبان خاتون سے باتیں شروع کیں ، کچھ اپنی کہی اور کچھ ان کی سنی، اور اس طرح اس حسین شام کے طویل گھنٹے ہمارے لیے مختصر ہوگئے ۔ ہم نے باتوں باتوں میں ان خوبو رت جرمن خاتون سے جرمن تہذیب و تمدن اور ثقافت کو سمجھنے کی کوششیں شروع کیں اور انہیں اپنی مشرقی روایات سے آگاہ کرنا شروع کیا تو ہم خودکھوئے سےگئے۔ ہم ان باتوں میں یوں کھوئے کہ اپنا آپ بھولے اور رات گئے ہوش آیا۔ دونوں میزبانوں نے ہم چاروں مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ ادھر ہم نے بھی اپنے دونوں میزبانوں اور خاص طور پر اپنی حسین میزبان کا شکریہ ادا کیا کہ جن کی بدولت اس قدر حسین شام ہمارے حصے میں آئی اور رات بارہ بجے کی بس پکڑ کر اپنے کمرے کو سدھارے۔
خیر صاحب اس طرح جمعہ یعنی ہمارے اس کورس کا یومِ آخر بھی آگیا۔ اپنی کلاس میں پہنچ کر اسامد صاحب کے آنے تک ہم نےخوب جی بھر کر انےہ دوستوں کے ساتھ گپ شپ کی۔ دوپہر بارہ بجے تک ہم سب تجربہ گاہ کوسمیٹ کر اور اپنےاساتذہ سے اپنی اپنی اسناد لے کر فارغ ہوچکے تھے۔ ہم آخری مرتبہ اپنے تمام دوستوں سے ملے اور دل پرایک بھاری بوجھ لیے ان سب سے رخصت ہوگئے۔ 
اب ہم تھے اور ہماری تنہائی۔ اب ہمیں ڈھائی پہاڑ سے دن اس غیر ملک میں تنِ تنہا گزارنےتھے۔ اس پر طرہ یہ کہ بابو کا انتظار کرنا تھا۔ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے وطن سے نکلے اور اس غیر ملک میں پورے تین ہفتے، اپنی مادری زبان بولے بغیر ، اپنے گھر والوں اور اپنے ہم وطنوں کو دیکھے بغیر گزار چکے تھے اور اب انگریزی بولتےبولتے اور پشتونما جرمن سنتے سنتے تھک چکے تھے۔ اِدھر ہمیں یہ مژدہ جاں فزا بھی سننے کو مل چکا تھا کہ اگلےدوہفتےیعنی اگلی کلاس میں ہمارے یارِ جانی عرف بابو بھی ہمارے ساتھ ہوں گے۔ یوں یہ دودن کا انتظار بھی کافی جان لیوا ثابت ہورہاتھا۔
وہ سہہ پہر ہم نے بازار میں گزاری اور بابو کے شایانِ شان کوئی کھانے کی شے کھوجتے رہے۔ بالآخر طے کیا کہ ایک اچھے دوست کے لیے چاکلیٹ سے بہتر اور کوئی تحفہ توہو ہی نہیں سکتا اور ایک دکان سے باؤنٹی چاکلیٹ کے پانچ عدد چھوٹے پیکٹ مول لے لیے۔بازار ہم گئے تھے، اک چوٹ مول لائے۔ہفتے کے اختتامیے کے بعد بروزِپیرجب بابو سے ملاقات ہوگی تو ہم انھیں کھانے کے یہ میٹھے اور ذائقے دار چاکلیٹ پیش کریں گےتو وہ ہماری دوستی اور خلوص سے کس قدر متاثر ہوں گے۔ہم سا دوست کوئی کہاں سے پائے گا۔ 
ہفتے کے دن ہم دیر تک سوتے رہے ۔تقریباً دوپہر کو نہایت کسلمندی کے ساتھ اٹھے، ناشتہ کیا اور پھر سوگئے۔ اُٹھے تو خیال آیا کہ پانچ چاکلیٹ بہت ہوتے ہیں اور پھر بابو اتنے چاکلیٹ بھلا کب کھاتے ہوں گے، لہٰذا ایک چاکلیٹ نکال کر حضم کرگئے۔ اسی طرح باقی وقت اور اتوار کا پورا دن بابو کا انتظار کرتے رہے اور چاکلیٹ کھاتے رہے، یہاں تک کہ انتظار کی گھڑیاں بھی کٹ گئیں اور چاکلیٹ بھی ختم ہوگئے اور ہم اگلے خوشگوار دن کا تصور اپنے ذہن میں لاتے ہوئےنیند کی وادی میں پہنچ گئے۔

No comments:

Post a Comment